سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روک دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سو فیصد غیر آئینی اور غیر قانونی حکمنامہ ہے۔
سابق جج نے کہا کہ یہ عجلت میں اٹھا گیا غیر ضروری اقدام ہے جیونکہ یہ قانون ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سے کی گئی قانون سازی حتمی طور پہ منظور ہو جائے تو پھر ہی سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 8 کے تحت اسے دیکھ سکتی ہے کہ آیا یہ بنیادی حقوق سے متصادم تو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تو یہ قانون ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں بنا سپریم کورٹ نے اس پر حکم امتناع جاری کر کے مقننہ کی حدود میں دخل اندازی کی ہے۔
سابق جج نے سپریم کورٹ کے حکمنامے میں موجود آرٹیکل 191 پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ خود رولز بنا سکتی ہے لیکن بنائے تو نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کوئی سپریم کورٹ کا تخلیق کردہ ادارہ نہیں بلکہ سپریم کورٹ آئین کا تخلیق کردہ ادارہ ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ پارلیمنٹ پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی قانون کسی ضرورت کے تحت ہی بنایا جاتا ہے جس طرح سے حالیہ کچھ عرصے میں معاملات چل رہے ہیں اس صورتحال میں سپریم کورٹ کی ورکنگ متاثر ہوئی تاہم اس پر قانون سازی ضروری تھی۔
دوسری جانب ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامہ پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ایک سوال پر کہ سپریم کورٹ نے کیسے پہلی سماعت پر بغیر فریقین کو سنے حکم امتناع جاری کیا کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی مقدمے میں جب عدالت حکم امتناع جاری کرتی ہے تو وہ پہلی سماعت پر ہی ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184(3) پر اپیل کا قانون آرٹیکل 185 میں آتا ہے اور اگر 184(3) میں ترمیم مقصود ہے تو پھر آئینی ترمیم کرنی پڑے گی۔
جی ایم چوہدری نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں نہ آئین ہے نہ قانون اور نہ ہی اخلاقیات انہوں نے کہا کہ بینچوں کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے لیکن اس وقت جتنی محاذ آرائی بڑھ چکی ہے اس کو کنٹرول کرنا لازمی ہے ورنہ یہ ملک کے لئے نقصان دہ ہو گا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا بیان کہ حکومت اس بینچ کو نامنظور کرتی ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے جی ایم چوہدری نے کہا کہ حکومت کے پاس اس بینچ کے احکامات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حامد خان کہتے ہیں کہ بہتر ہوتا اگر بینچ میں سینئر جج صاحبان کو شامل کیا جاتا لیکن اس کے باوجود بھی بینچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے اور اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے۔
حامد خان نے کہا کہ یہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے اور دس دن میں صدر کے دستخط کے بغیر بھی یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ بن جائے گا لیکن سپریم کورٹ نے اس بل کو بطور ایکٹ آف پارلیمنٹ ہی لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق سے متصادم قانون سازی پر عدلیہ نظر ثانی کر سکتی ہے اور اس میں سپریم کورٹ نے جس چیز کو بنیادی حقوق سے جوڑا ہے وہ عدلیہ کی آزادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بل کچھ حوالوں سے عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرے گا اور کچھ حوالے سے نہیں کرے گا لیکن بنیادی بات اس بل کو پاس کرنے کے حوالے سے اس کی ٹائمنگ ہے۔ ریفارمز ہمیشہ ٹھنڈے دماغ سے کی جاتی ہیں۔ اور آرٹیکل 191 میں سپریم کورٹ کو اپنے قوانین خود وضع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
وضح رہے کہ پاکستان میں عدالتی محاذ آرائی اس وقت بھرپور زور پکڑ چکی ہے گزشتہ روز جب اس مقدمے کی سماعت کا اعلان ہوا اور بینچ تشکیل دیا گیا تو پاکستان بار کونسل نے اس پر احتجاج کی کال دے دی۔