ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا ناٹو اتحاد سے نکل سکتا ہے۔ اس بیان سے پہلے ہی یورپی یونین امریکا پر اپنا دفاعی انحصار کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ علاقوں میں عملی نشئی کو بھی کہتے ہیں۔ آپ کا دل چاہے تو عملی اقدام کو ایسے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ خیر ، خیر یورپی یونین نے دفاعی صلاحیت کو آزادانہ طور پر بڑھانے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
یوکرین کی جنگ کے بعد یورپ نے روس کو حقیقی خطرے کے طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی سے یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ امریکا کی ناٹو اور یورپ کے لیے پالیسی تبدیل ہو گی۔ ٹرمپ کئی بار کہہ چکا ہے کہ وہ صدر بننے کے بعد یورپ کو دی گئی امریکا کی سیکیورٹی گارنٹیاں واپس لے لے گا۔ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی ممالک خود اپنے دفاع پر جی ڈی پی کا دو فیصد بھی نہیں خرچ کرتے اور امریکا سے چاہتے ہیں کہ وہ مفت میں یورپ کی حفاظت کرے۔
یورپی یونین اب پانچ سو ارب یورو کا ایک دفاعی فنڈ قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یورپی یونین نے اس فنڈ میں ناروے اور برطانیہ کو بھی شامل ہونے کا کہا ہے۔ برطانیہ نے حال ہی میں اپنے دفاعی بجٹ پر کٹ بھی لگایا ہے۔ فرانس اور جرمنی جو پہلے اپنے رافیل جیٹ اور یورو فائٹر کے لیے دنیا میں الگ الگ گاہک ڈھونڈ رہے تھے، اب مشترکہ دفاعی فنڈ میں شریک ہونے جا رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اب دو، دو جنگی جہاز بناؤ گے یا خرچ بچانے کو ایک ہی کو بہتر کرو گے۔ اور وہ کون سا جیٹ طیارہ ہو گا۔
مشترکہ دفاعی فنڈ اگر قائم ہوتا ہے تو ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر ہونے والا بہت سا خرچہ بھی بچائے گا۔ ایک ہی قسم کے پراجیکٹ پر ممبر ملکوں کو الگ الگ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ یورپی دفاعی انڈسٹری میں جان پڑے گی۔ نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یورپی کمپنیوں کو نئے اکویپمنٹ بنانے اور بیچنے کو بڑی مارکیٹ دستیاب ہو گی۔ مارکیٹ بھی ایسی جس کے پاس ایک بڑا فنڈ بھی دستیاب ہوگا۔
جرمنی، نیدرلینڈ اور ڈنمارک فنڈ قائم کرنے کے ایسے کسی آئیڈیا کی پہلے مخالفت کرتے رہے ہیں۔ پولینڈ اور یونان نے یورپ کے مشترکہ ائیر ڈیفنس کا آئیڈیا دیا ہے۔ اس پر اگر عمل ہوتا ہے، یورپ کا مشترکہ ائیر ڈیفنس قائم کیا جاتا ہے تو صرف اس کے لیے ہی 500 ارب یورو کا فنڈ درکار ہوگا۔ اتنا ہی جتنا یورپی یونین جمع کرنے جا رہی ہے۔
یورپی یونین کے ممبر ملکوں کا دفاعی بجٹ کے حوالے سے بڑا چیلنج وہاں کے عوام ہیں۔ یورپ کے لوگ دفاعی اخراجات میں اضافے کے حامی نہیں ہیں۔ یوکرین کی جنگ نے رائے عامہ کو تبدیل تو کیا ہے۔ اب بھی دفاعی اخراجات میں اضافے کے مخالف اکثریت میں ہیں۔
ٹرمپ استاد کا کہنا ہے کہ اسے ڈکشنری میں جو لفظ سب سے زیادہ پسند ہے وہ ٹیرف ہے ۔ ٹرمپ جنگوں کا مخالف ہے۔ امریکی عوام کے ٹیکس کا پیسہ جاپان، جرمنی، یورپ کو دفاعی چھتری فراہم کرنے کے لیے لگانے کے بھی سخت خلاف ہے۔ الٹا وہ دوست ملکوں پر بھی ٹیرف عائد کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ نیویارک میں جرمن گاڑیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ان پر ٹیرف (ڈیوٹی) بڑھائی تو پھر یہ اتنی زیادہ دکھائی نہیں دیں گی۔
ٹرمپ جو کچھ کہہ رہا ہے اس نے دنیا کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ اب روس نے بھی غیر متوقع طور پر چین کی مصنوعات پر ٹیرف عائد کر دیا ہے۔ روسی ڈیوٹی سے 1 ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت کی چینی ایکسپورٹ متاثر ہوگی۔ چین روس اپنی پارٹنر شپ اور دوستی کو ’نو لمٹ پارٹنر شپ‘ کہتے ہیں۔ ایسے میں چینی مصنوعات پر روسی ٹیرف بدلتے موسم کی خبر دے رہا ہے۔ چین نے اگر روس پر جوابی ٹیرف عائد کیا تو ایک نیا میچ شروع ہو جائے گا۔
یہ بدلتی ہوئی دنیا ہے۔ اس بدلاؤ کے پیچھے ایک ہی نام ہے ڈونلڈ ٹرمپ۔ ابھی اس بھائی نے صدر کا حلف بھی نہیں اٹھایا اور اس کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ پاکستان ان بدلتے حالات میں پہلی بار ایسی پوزیشن پر ہے جہاں امکانات ہیں اور رسک کم ہیں۔ ہمارے خطے میں کوئی لڑائی نہیں ہو رہی ہے۔ امریکا افغانستان سے جا چکا ہے۔ پاکستان امریکا کی ترجیحی لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ پاکستان اپنے حالات کے مطابق بزنس ٹریڈ کنیکٹیوٹی اور انرجی کی طرف فوکس ہو رہا ہے۔
پاکستان پر صرف ایک دباؤ آ سکتا ہے۔ وہ ہمارے سیاسی عدم استحکام سے متعلق ہے ۔ اگر ہم اپنے سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈ لیں۔ تو ہم نئے امکانات سے فائدے حاصل کرنے کے لیے تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمارا نیو نارمل یہ ہے کہ احتجاج دھرنوں اور امن و امان کے حالات کے باوجود یہاں اب غیر ملکی مہمان آنے لگ گئے ہیں، ایس سی او اجلاس ہو چکا ہے تو امید یہی ہے کہ ٹرمپ کی دنیا میں پاکستان سکون سے ہی رہے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔