کیا رچرڈ گرینل کے بیان کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے؟

جمعرات 19 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے سوشل میڈیا پر منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل کے اس ٹوئٹ کا بہت شہرہ ہے جس میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

گو کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کے بیانات اس وقت تک زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے جب تک اس سلسلے میں ملکوں کے درمیان باقاعدہ سفارتی سطح پر کوئی بات چیت نہ ہوجائے لیکن اس طرح کے بیانات اس سوچ اور نقطہ نظر کو ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔

کیا رچرڈ گرینل کے بیان کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور کیا اس بیان سے نئی امریکی انتظامیہ کی سوچ کا پتا چلتا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے کیا پالیسیز وضع کرے گی، اس سلسلے میں ہم نے سفارتی ماہرین سے ان کی آرا جاننےکی کوشش کی ہے۔

علی سرور نقوی

سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹیٹوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفارتکار علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (امریکی دفتر خارجہ) کی پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے حوالے سے جو سرکاری پوزیشن ہے وہ تو یہ ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا۔

علی سرور نقوی نے کہا کہ رچرڈ گرینل منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندے ہیں اور ان کے بیان کی اہمیت ہے تو ضرور لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں۔

ٹرمپ کبھی بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں، مسعود خالد

سابق سفارتکار مسعود خالد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز لابنگ کر رہے ہیں اور اگر وہ منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک رسائی حاصل نہیں بھی کر سکے تو ان کے مشیروں تک تو رسائی حاصل کرہی لیں گے اور کر بھی رہے ہیں۔

مسعود خالد نے کہا کہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے کئی اہم کام ہیں جیسا کہ مشرق وسطٰی کی صورت حال، یوکرین کا معاملہ، چین اور اب شام بھی اس لیے سوال یہ ہے کہ آیا وہ صدر بنتے ہی سب سے پہلے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کریں گے؟

انہوں نے مزید کہا کہ بظاہر تو یہ مشکل نظر آتا ہے لیکن صدر ٹرمپ کے بارے میں پیشنگوئی کرنا مشکل کام ہے کیوں کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں اور اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ پی ٹی آئی کے امریکا میں مقیم حمایتیوں کی لابنگ کس حد تک اثرانداز ہو سکتی ہے۔

رچرڈ گرینل کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، نجم الثاقب

سابق سفارتکار نجم الثاقب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں 20 جنوری کا انتظار کرنا چاہیے جب ڈونلڈ ٹرمپ اپنی حلف برداری کے بعد باضابطہ امریکی صدر بن جائیں گے اور صرف ایک بیان کی وجہ سے ہمیں پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیوں کے بارے میں حتمی نتائج اخذ نہیں کرنے چاہییں۔

سابق سفیر نے کہا کہ فی الحال منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جن لوگوں کو سیکریٹریز، مشیر اور نمائندے مقرر کر رہے ہیں ان کے بارے میں پہلے ہی مباحث شروع ہو چکے ہیں لیکن صدر بننے سے پہلے اور اس کے بعد کی صورتحال مختلف ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سائفر والے واقعے میں امریکی سفارتکار ڈونلڈ لو نے کہا تھا کہ اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں اور اب اگر امریکا کو عمران خان کی رہائی کی بات کرنی ہے تو وہ ایکس کے ذریعے تو نہیں ہو گی۔

ایک فرضی صورتحال میں اگر وہ امریکا میں ہمارے سفیر کو بلا کر اس کو کوئی پیغام دیتے ہیں یا پاکستان میں امریکی سفیر کوئی پریس کانفرنس کرتا ہے یا امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے تحریری صورت میں کوئی پیغام آتا ہے تو پھر اس کے بعد ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول اسٹیبلشمنٹ، پرائم منسٹر آفس، کابینہ بیٹھ کر سوچیں گے کہ اس پر کیا کرنا چاہیے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسی صورتحال میں بھی ایسے مراسلوں کو نظرانداز ہی کیا جانا چاہیے کیوں کہ  پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور ایسی کوئی بات تو خود مختاری پر حملہ ہو گی لیکن اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری تک انتظار کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ صورتحال کس کروٹ بیٹھتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp