نوجوانوں کو بیرون ملک جانے سے کیسے روکیں؟

ہفتہ 21 دسمبر 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بہتر روزگار اور اچھے طرز زندگی کی خاطر ہجرت اور نقل مکانی کرکے دوسرے ملکوں میں جانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ ستر کی دہائی میں پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں ورکرز روزگار کے سلسلے میں مشرق وسطیٰ کے ممالک پہنچے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

ایک اندازے کے مطابق سال 2023 میں پاکستان سے آٹھ لاکھ سے زائد ورکرز روزگار کی خاطر بیرون ملک گئے جن میں سے 50 فی صد کا تعلق پنجاب سے تھا اور 33 ہزار 483 ورکرز کے ساتھ سیالکوٹ ضلع پہلے نمبر پر رہا۔

آبادی میں اضافہ اور روزگار کے مواقعے انتہائی کم ایسی وجوہات ہیں جو نوجوانوں کو قانونی یا غیر قانونی طریقوں سے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک جانے پر مجبور کرتی ہیں۔ بیرون ملک سے زرمبادلہ بھیج کر بڑے بڑے گھر بنانے اور پرتعیش شادیاں کرنے کے رواج بھی بچوں کے ذہن خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ماں باپ بچوں کے دباؤ میں آکر زمین کے ٹکڑے بیچ کر یا پھر ساری جمع پونجی لگا کر بچوں کو بیرون ملک بھجنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ہر سال ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ کہیں کشتی ڈوب گئی تو کہیں بیگار کیمپوں میں قید کرکے ان لڑکوں سے مشقت کروائی جاتی ہے۔ مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو کٹھن راستوں میں ہی زندگی کی بازی ہار گئے۔

کم ترقی یافتہ ملکوں سے نوجوانوں یا خاندانوں کا امیر ملکوں کی طرف رخ کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ یورپ ہو یا امریکا یا پھر مشرق وسطیٰ لوگ بارڈر کراس کرنے کے لیے ہر قسم کا حربہ اختیار کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ کوئی مشرقی یورپ سے مغربی یورپ کی طرف جانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتا ہے تو بے شمار لوگ جنوبی ایشیا سے مڈل ایسٹ یا یورپ امریکا جانے کے لیے بھاری بھرکم رقم ہاتھ میں لیے پھرتے ہیں۔

دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کی تعداد میں کمی کے باعث ورکرز کی قلت کا سامنا ہے اور مختلف شعبوں میں ہنرمند ورکرز کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی حکومت ٹیکنیکل ایجوکیشن میں ایسے کورسسز متعارف کروا رہی تاکہ نوجوانوں کو بیرون ملک ان شعبوں میں نوکریاں مل سکیں۔

مگر ملک کے مختلف حصوں میں نوجوان کوئی ہنر سیکھنے کے بجائے شارٹ کٹ کے ذریعے بیرون ملک کو ترجیح دے رہے ہیں اور ایجنٹ مافیا کو لاکھوں روپے دے کر غیر قانونی طریقے سے یورپ اور امریکا جانے کی کوشش میں سخت مشکلات اور حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

صرف پاکستان ہی نہیں بھارت سمیت افریقہ اور مشرقی یورپ کے ملکوں سے بھی تارکین وطن ایجنٹوں کے ذریعے امیر ملکوں میں روزگار کے لیے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا سے ہر سال غیر قانونی امیگرنٹس کو جہازوں میں ڈال کر بھارت واپس بھیجا جاتا ہے۔
اسی طرح جنوبی امریکا کے لوگ جنگلوں اور سمندر میں کئی کئی روز سفر کرکے امریکا اور کینیڈا داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں جنگوں نے بھی لاکھوں افغانیوں نے قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے یورپ پہنچ کر پناہ لی۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں امریکا نے 30 لاکھ کے قریب غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کیا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں 15 لاکھ افراد کو ملک بدر کیا۔ منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تارکین وطن کو ملک بدر کریں گے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف پاکستان کو درپیش نہیں بلکہ بھارت سمیت دنیا بھر کے ملکوں میں تارکین وطن کٹھن راستوں سے ترقی یافتہ ملکوں تک پہنچنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ برطانیہ، امریکا، کینیڈا جیسے امیر ملک اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں تاکہ غیر قانونی تارکین وطن اگر کسی طرح وہاں پہنچ بھی جائیں تو انہیں ملک بدر کرنے میں قانونی رکاوٹ درپیش نہ ہو۔ اس کے باوجود یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

پچھلے چند برس میں پاکستان کی بگڑتی ہوئی سیاسی اور معاشی صورت حال کے پیش نظر لاکھوں کی تعداد میں طلبا اور ورکرز بیرون ملک جانے کو ترجیح دی ہے اور امیگریشن کمپنیوں اور ایجنٹوں کا کام عروج پر ہے۔ آسٹریلیا اور کینیڈا نے انٹرنینشنل طلبا کے داخلوں پر حد مقرر کردی ہے۔
وہاں مقامی افراد اپنی حکومتوں سے شکایت کر رہے ہیں دنیا بھر سے طلبا کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے وہاں مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان تمام ملکوں میں سب سے زیادہ بھارتی طلبا اور تارکین وطن کی ہے۔

حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کے مختلف شہروں سے غیرقانونی طور پر یورپ یا دیگر ملکوں میں جانے کا رحجان کم نہیں ہوسکا۔ جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو پولیس اور ایف آئی اے متحرک ہو جاتے ہیں اور ایجنٹس کے خلاف مقدمات درج کرکے گرفتار کر لیتے مگر والدین کی طرف سے پیروی نہ ہونے کی وجہ سے وہ رہا ہوجاتے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ والدین خود ان ایجنٹس کے پاس جا کر اپنے بچوں کو جلد از جلد یورپ بھجوانے پر اصرار کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف اس وقت اجاگر ہوتا ہے جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے ورنہ ہر سال بڑی تعداد میں نوجوان انہی ایجنٹس کے ذریعے اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں جس سے دوسرے نوجوانوں اور ان کے والدین کو ترغیب ملتی ہے۔ اور یہ سلسلہ تب ہی رکے گا جب ان نوجوانوں کو اپنے ملک میں اچھے روزگار کے مواقع ملیں۔ مگر یہ کب اور کیسے ہوگا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp