صدیق الفاروق کے ذکر پر دو واقعات یاد آتے ہیں، پہلے واقعے کا تعلق قومی اسمبلی کی پریس گیلری سے ہے اور دوسرے کا وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ سے۔ پریس گیلری میں تو معاملہ مصافحے پر نمٹ گیا جہاں تک دوسری ملاقات کا معاملہ ہے، وہ تشنہ رہی پھر میں نے صدیق الفاروق کو کیسے جانا، اصل سوال یہی ہے۔ تعریف انسان کی انا کو گنے کا رس پلا کر اس کی روح کو راضی کر دیتی ہے۔ اس معمے کا مختصر جواب تو اس تعریف میں بھی پوشیدہ ہے جس کے راوی ڈاکٹر یوسف خشک ہیں۔ صدیق الفاروق ان سے ملے تو میرے بارے کلمۂ خیر کہا لیکن کچھ باتیں اس کے علاوہ بھی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اس قصے کا آغاز ’کچھ باتوں‘ سے کیا جائے۔
صحافی فاروق فیصل خان کو ان کا ہم عصر کہنا تو درست نہ ہوگا لیکن انھوں نے مرحوم کی طلبہ سیاست نہ صرف یہ کہ اپنے ہوش و حواس میں دیکھ رکھی ہے بلکہ کچھ کچھ اس کا حصہ بھی رہے ہیں۔
یہ مئی یا جون 1977 کی بات ہوگی، انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک زوروں پر تھی، اسی دوران میں دنیا نے صدیق الفاروق کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو دیکھا، مخالفین بھی جس کی تعریف کرتے ہیں۔ فاروق فیصل خان بتاتے ہیں کہ وہ تحریک گلی کوچوں تک پھیل چکی تھی اور مرد تو رہے ایک طرف خواتین بھی راہ سے گزرتے ہوئے مخالفین پر ابلتے ہوئے پانی کے برتن انڈیل دیا کرتی تھیں۔ ایسا ماحول تھا جس میں پاکستان قومی اتحاد کے چھ آٹھ کارکن راولپنڈی کے بھابھڑا بازار میں محصور ہوگئے۔ ڈیڑھ دو سو افراد ان کا پیچھا کررہے تھے۔ کچھ عجب نہ ہوتا کہ یہ لوگ اس ہجوم کے ہاتھ لگتے تو ان کی تکا بوٹی ہو جاتی لیکن خوش قسمتی نے ان کا ساتھ دیا، کسی گھر کا کھلا دروازہ دیکھ کر ان لوگوں نے اس میں پناہ لے لی۔ پناہ تو ان لوگوں کو مل گئی لیکن صدیق الفاروق کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ دشمن کے خوف سے کسی اجنبی کے گھر میں چھپ کر بیٹھا جائے۔ بس، ان کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ ترکیب کیا تھی خطروں کی زنبیل تھی لیکن انھوں نے چوں کہ فیصلہ کرلیا تھا اس لیے نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر اس پر عمل کر گزرے۔ حملہ آوروں نے علاقے کو گھیر رکھا تھا، بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ ساتھیوں کے ساتھ پناہ گاہ سے نکلے اور اس انداز میں پوزیشن لے کر کھڑے ہوئے کہ جیسے ہی کوئی ان کی طرف بڑھا، یہ اس پر چڑھ دوڑیں گے۔ اتنے بڑے ہجوم کے مقابلے میں چند افراد کا نکل کھڑے ہونا ہی حیران کن تھا، اس پر صدیق الفاروق کی للکار۔
صدیق الفاروق جنھوں نے اس وقت ایک چادر لپیٹ رکھی تھی، للکار کر کہا:
’جس ماں دے پتر نے اج دی رات قبر وچ گزارنی اے سامنے آوے۔‘
للکار مؤثر ثابت ہوئی اور محاصرہ کرنے والے رفتہ رفتہ چھٹنے لگے۔ کچھ دیر میں میدان بالکل صاف تھا اور یہ چھ سات فاتحین نعرے لگاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے یہ سنا تو بے ساختہ کہا:
’جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے‘
فاروق فیصل خان نے یہ مصرع سنا تو کہا:
’صدیق الفاروق اگر ایک مضمون ہوتا تو اس مضمون کی سرخی یہی ہوتی۔‘
ایسی ’واردات‘ کوئی ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جس کے اعصاب مضبوط اور صلاحتیں قائدانہ ہوں۔ صدیق الفاروق میں یہ اوصاف کیسے پیدا ہوئے؟ یہ کہانی میں نہ سن پاتا اگر لطیف شاہ مجھے ڈاکٹر فرخ تک نہ پہنچاتے۔
ڈاکٹر فرخ اس زمانے اسلامی جمعیت طلبہ راولپنڈی کے ناظم تھے۔ وہ صدیق الفاروق تک کیسے پہنچے اور ان سے کیا توقعات وابستہ کیں، یہ کہانی دلچسپ ہے۔ جمیعت کے ناظم کی حیثیت سے ان پر بھاری ذمے داریاں تھیں۔ ان میں ایک ذمے داری طلبہ یونین کے آئندہ انتخابات کے لیے موزوں اُمیدواروں کی تلاش بھی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں کسی نے صدیق الفاروق کے بارے میں بتایا تو وہ فوراً ان سے ملنے جا پہنچے اور انہیں اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ صدیق الفاروق نے جواب دیا کہ وہ ایک محنت کش گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کے لیے جتنا وقت اور وسائل درکار ہیں، وہ ان کے پاس نہیں ہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان کے والد ایک اسکول ٹیچر تھے جن کی وفات کے بعد اہل خانہ نے محلے میں ہی کریانے کی ایک دکان بنا رکھی تھی۔ گھر کے دیگر افراد کے علاوہ خود صدیق الفاروق بھی دکان پر وقت دیا کرتے تھے۔ بہرحال ڈاکٹر فرخ انہیں قائل کرنے میں کامیاب رہے اور صدیق الفاروق نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا۔
صدیق الفاروق کے ذکر پر ڈاکٹر فرخ نے اداسی بھری مسکراہٹ کے ساتھ اپنی یادیں تازہ کیں:
’غربت کے باوجود اس نے اپنی خودداری پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا، ہمیشہ اچھا لباس پہنا، سوٹ کے ساتھ وہ ٹائی استعمال کیا کرتا اور بھلا لگتا۔ حاضر جوابی اور بہادری طلبہ سیاست کی شرط اول ہے اور کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہادر انسان تھا۔‘
ان کی بہادری کا ایک واقعہ تو ایسا ہے جس نے قومی سیاست کا دھارا ہی بدل دیا۔ بھٹو صاحب کے پورے دور حکومت میں ہنگامی حالات (ایمرجنسی) کا نفاذ رہا۔ 1977 کی آخری سہ ماہی میں انھوں نے عام انتخابات کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی ہنگامی حالات کے خاتمے کا بھی اعلان کردیا۔ یہ دن کئی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک تو ایمرجنسی کے خاتمے کے تعلق سے اور دوسرے خوف کی اس کیفیت کے حوالے سے جو بھٹو صاحب کے پورے دور میں طاری رہا۔ ڈاکٹر فرخ بتاتے ہیں:
’ہم لوگوں نے ایمرجنسی اٹھنے کے ٹھیک ایک منٹ کے بعد جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا جس میں شہر کے تمام کالجوں کے طلبا کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس جلوس کی قیادت صدیق الفاروق نے کی۔’
بھٹو صاحب کا دور حکومت حزب اختلاف کے لیے کچھ ایسا آسان نہیں تھا ہر طرف خوف کے سائے تھے۔ عمومی خیال یہی تھا کہ کس میں ہمت ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں انتخابی مہم چلا سکے لیکن یہی جلوس تھا جس نے خوف کا بت توڑا۔ اسی لیے یہ واقعہ ایک بین الاقوامی خبر بنا جس کی بازگشت دور دور تک سنائی دی جب کہ بی بی سی کے مارک ٹیلی کی رپورٹنگ نے صدیق الفاروق کو ہیرو بنا دیا۔ ان کی قیادت میں نکلنے والا جلوس اس اعتبار سے غیر معمولی تھا کہ اس نے نہ صرف گزشتہ سات برس کے خوف کی چادر تار تار کی بلکہ آئندہ دنوں میں پاکستان قومی اتحاد کی انتخابی مہم کو بھی اعتماد بخشا۔ راولپنڈی کے طالب علموں اور نوجوانوں کو اس ’جرم‘ کی قیمت گرفتاریوں اور قید و بند کی صورت میں چکانی پڑی۔
ڈاکٹر فرخ کہتے ہیں:
’اس پکڑ دھکڑ میں صدیق الفاروق سب سے بڑا مطلوب اور ملزم تھا لیکن اس کے پایہ استقلال میں ذرا سی لغزش بھی نہ آئی۔’
صدیق الفاروق نے زمانۂ طالب علمی میں جو روش اختیار کی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں پختگی پیدا ہوئی جس کے بہت سے مناظر ان کی ذاتی اور سیاسی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں جیسے اختلاف رائے۔ فاروق فیصل خان نے رپورٹر اور چیف رپورٹر کی حیثیت سے اقتدار کے ایوانوں کا ایک زمانے تک مشاہدہ کیا ہے۔ مصاحبین یعنی حکمرانوں کے قریبی لوگوں کو وہ سورج مکھی سے تعبیر کرتے ہیں جو اپنا چہرہ ہمیشہ اسی جانب رکھتے ہیں جس طرف صاحب اقتدار کا ’رخ انور‘ ہوتا ہے۔ انہیں کئی ایسی محفلیں یاد ہیں جن میں وزیراعظم نواز شریف محو گفتگو ہوتے۔ دوران گفتگو صدیق الفاروق کو احساس ہوتا کہ صاحب گفتگو کی کوئی بات درست تناظر میں نہیں یا وہ موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں انھوں نے مداخلت کرنے میں کبھی دیر نہیں کی۔ میاں صاحب بھی اپنے ’مصاحب‘ کو پہچانتے تھے لہٰذا ان کی مداخلت سے وہ کبھی جزبز ہوتے نہیں دیکھے گئے۔
میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بنے تو انہیں اس جاٹ کی یاد ایک بار پھر آئی۔ متروکہ وقف املاک کا محکمہ ان کے سپرد کردیا۔ ’سمجھ دار‘ لوگوں کے لیے یہ ادارہ بہتی گنگا ہے کوئی چاہے تو اس میں ہاتھ دھوئے اور چاہے تو جوتوں سمیت ندی میں جا گھسے لیکن صدیق الفاروق نے کیا کیا؟ اس کا اندازہ ثاقب نثار کی کچہری میں ہوا جن کی اکڑفوں اور خودسری نے اس زمانے میں ریاست کی چولیں تک ہلا ڈالی تھیں۔ ثاقب نثار کو کہیں خیال آیا کہ نواز شریف کے باقی سارے آثار تو ہم نے مٹا ڈالے ہیں، صدیق الفاروق کیسے باقی رہ گیا۔ بس، انہیں بلا لیا اور اپنے جانے پہچانے مغرور لہجے میں سوال کیا:
’تمہیں اس ادارے کا سربراہ کس نے بنایا؟‘
’ملزم‘ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا:
’جس نے تمہیں اس مقدس کرسی پر بٹھایا۔‘
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والا ایسے اعتماد کے ساتھ متکبرانہ رویوں کا سامنا نہیں کرسکتا۔
متروکہ وقف املاک کی سربراہی کے زمانے میں ان کے طرز عمل کے بارے میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ایک خط کا بڑا شہرہ ہے جس میں انھوں نے صدیق الفاروق پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے بازو مروڑ کر ان سے دو کروڑ روپے وصول کیے۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رقم انھوں نے اپنی جیب میں ڈال لی۔ یہ واقعہ دلچسپ بھی ہے اور مرحوم کے مزاج کو سمجھنے کی کلید بھی۔ یہ خبر عام ہوئی تو فیصل فاروق خان کو فطری طور پر تشویش ہوئی، یوں انھوں نے تحقیقات شروع کردیں۔ مشکل یہ تھی کہ ایک طرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی بھاری بھر کم شخصیت تھی تو دوسری طرف ان کا جانا پہچانا صدیق الفاروق۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی رفاعی ادارہ بنا رکھا ہے جس کی تعمیرات متروکہ وقف املاک کی زمین پر ایسے انداز میں کی گئی ہیں، قانون جس کی اجازت نہیں دیتا۔ صدیق الفاروق کے علم میں یہ واقعہ آیا تو انھوں نے پہلے تحقیق کی پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر صاحب کا ادارہ تجاوزات میں ملوث ہے تو انھوں نے کارروائی میں ذرا بھی دیر نہ کی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک خط کی صورت میں اپنی فریاد وزیراعظم تک پہنچائی لیکن حقائق اس فریاد کی تائید نہیں کرتے تھے، یوں ڈاکٹر صاحب کے ادارے کو اس زمین کی قیمت سرکاری خزانے میں جمع کرانی پڑی۔
جاوید ہاشمی اور احسن اقبال جیسے لوگوں کی طرح صدیق الفاروق کا نظریاتی شجرہ بھی سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کی فکر سے ملتا ہے۔ ڈاکٹر فرخ گواہی دیتے ہیں کہ وہ اس فکر کے ہمیشہ وفادار رہے پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی سیاسی منزل جماعت اسلامی کیوں نہ بنی؟ یہ سوال محض ایک سوال نہیں، ایک ایسی پہیلی ہے جو کبھی حل ہوئی تو ہماری تاریخ و سیاست کی بہت سی گتھیاں سلجھ جائیں گی۔
صدیق الفاروق کا لڑکپن اور جوانی طلبہ سیاست میں گزرے۔ اس زمانے کا عنوان ہے مزاحمت، یہ مزاحمت صرف بھٹو مرحوم اور پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں تھی، ایک نظریے کے خلاف تھی جس کی جڑیں ہماری تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے پاکستان اسلامک فرنٹ بنا کر اتحادی سیاست کو خیرباد کہا تو مولانا امین احسن اصلاحی جیسے مفکر اس پر فکر مند ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے اس فیصلے سے ملک میں سیکولر قوتیں مضبوط ہوں گی۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ ن کا ساتھ چھوڑنا دائیں بازو کی کمزوری کا باعث بنے گا۔ صدیق الفاروق ہوں یا باقی بہت سے دوسرے، انھوں نے اس زمانے میں جو راستہ اختیار کیا، اس کی ایک وجہ یہی تھی۔ دوسری وجہ کی طرف ڈاکٹر فرخ اشارہ کرتے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ کاش کوئی ایسا میکنزم بن پاتا جس کی مدد سے زمانہ طالب علمی میں ہمارے ساتھ آنے والے جوہر قابل کو سنبھالا جا سکتا۔
صدیق الفاروق سے میری پہلی ملاقات قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں اس روز ہوئی جس روز سپریم کورٹ سے اپنی حکومت کی بحالی کے بعد وزیراعظم نواز شریف ایوان میں آئے اور اعتماد کا ووٹ لیا۔ وزیراعظم کے خطاب کے بعد صدیق الفاروق گیلری میں آئے، وہ اس زمانے میں وزیراعظم کے پریس سیکریٹری تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے یہ شخص اکھڑ اور سنکی ہے۔ دوسری ملاقات وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں ہوئی۔ وہ زمانہ کراچی میں قتل و غارت گری کا تھا۔ وزیراعظم تقریباً ہر ہفتے کراچی کا چکر لگاتے اور اہم فیصلے کرکے اسلام آباد پلٹ جاتے۔ وزیراعظم ہیلی پیڈ کی طرف روانہ ہوئے تو صدیق الفاروق ہماری طرف آئے اور جلدی جلدی فیصلوں کے چند نکات ہمیں بتائے۔ اس روز میں نے سوچا کہ یہ شخص جلد باز بھی ہے پھر ایک روز ان سے میری ملاقات نیشنل لائبریری اسلام آباد کے تہہ خانے کی سیڑھیوں پر ہوئی۔ میں کام نمٹا کر اوپر جا رہا تھا اور وہ تحقیق کی جستجو میں اسی تہہ خانے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ چیف لائبریرین راجا جاوید اقبال نے بتایا کہ صدیق الفاروق صاحب تو اکثر یہاں آتے ہیں اور گھنٹوں پرانے اخبارات پڑھتے جاتے ہیں اور نوٹس لیتے جاتے ہیں۔ اس روز مجھے کسی صاحب کرامت بزرگ کی حکایت یاد آئی جس میں ایک نوآموز درویش کی پریشانی بیان کی گئی ہے۔ وہ درویش جہاں جاتا، بزرگ کو وہیں موجود پاتا۔ اس حکایت نے بہت سے بھید کھول دیے۔ صدیق الفاروق سے لائبریری کی سیڑھیوں پر ہونے والی ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ ہم دونوں نے اس روز راجا جاوید اقبال کے دفتر میں گُڑ والی چائے پی اور بہت سی باتیں کیں۔ اس کے بعد میں نے اس شخص کے بارے میں اندازے لگانے بند کردیے۔ آج مجھے یقین ہے کہ سرد مہری اور خشونت اس میں نام کو نہ تھی، جلد باز تو وہ بالکل نہیں تھا۔ تحقیق کا جویا جلد باز کیسے ہو سکتا ہے پھر وہ شخص کیا تھا؟ اس سوال کا جواب مجھے معلوم ہو چکا ہے لیکن کچھ باتیں کسی خوب صورت یاد کی طرح دل میں بھی تو رکھنی چاہئیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔