ولادی میرپیوٹن نے معافی مانگی لی لیکن ذمہ داری قبول نہیں کی، بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن بھی میدان میں کود پڑی اور منصفانہ آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔ یوکرین نے پیوٹن کومشورہ دیا کہ وہ واقعے کو پیچیدہ نہ بنائیں۔
روس کے صدر ولادی میرپیوٹن نے روسی فضائی حدود میں آذربائیجان کے طیارے کو مار گرائے جانے پرہمسایہ ملک آذربائیجان کے صدر سے معافی مانگ لی ہے، اس حادثے میں 38 افراد ہلاک ہوئے، تاہم پیوٹن نے روس کو ذمہ دار کہنے سے گریزکیا۔
کرسمس ڈے حادثے پراپنے پہلے تبصرے میں پیوٹن نے کہا کہ یہ “افسوسناک واقعہ” اس وقت پیش آیا جب روسی فضائی دفاعی نظام یوکرین کے ڈرون کو پسپا کررہا تھا۔ یوکرین کے صدر ولادی میرزیلنسکی نے کہا کہ روس کو اس حملے کے بارے میں “غلط معلومات پھیلانا بند کرنا چاہیے”۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طیارہ روسی فضائی دفاع کی طرف سے فائر کی زد میں آگیا تھا، جب اس نے روسی علاقے چیچنیا میں اترنے کی کوشش کی تھی، جس نے اسے بحیرہ کیسپین کے پارموڑدیا تھا۔
آذرآئیجان ایئرلائن کے اس حادثے کا واقعہ اب بین الاقوامی بحث میں بدل گیا ہے۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (ICAO) کوبھی اس واقعے پرباضابطہ بیان جاری کرنا پڑا، اور منصفانہ و آزادانہ تحقیقات کی سفارش کرنی پڑی۔ جس سے معاملات مزید سنجیدہ ہوگئے ہیں۔
یاد رہے کہ آذربائیجان ائیرلائن کی J2-8243 کی پرواز جو روس میں لینڈ کرنے کے لیے تھی، قازقستان میں کریش لینڈنگ کے نتیجے میں 38 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حادثے کے اردگرد کے حالات ابھی تک واضح نہیں ہیں، لیکن ابھی تک کے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اسے روسی فضائی دفاعی نظام کے میزائلوں سے نقصان پہنچا ہے، جب اس نے چیچنیا میں اترنے کی کوشش کی تھی۔
بدقسمت مسافرطیارے نے 25 دسمبر 2024 کی صبح آذربائیجان کے دارالحکومت باکوکے ہوائی اڈے سے اڑان بھری۔ اس نے روسی علاقے چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں لینڈ کرنا تھا۔ جہاز میں 67 مسافر سوارتھے، جن میں سے زیادہ تر آذربائیجان کے شہریوں کے ساتھ ساتھ روس، قازقستان اور کرغزستان کے بھی شہری تھے۔
جیسے ہی پرواز گروزنی کے قریب پہنچی، مبینہ طورپریہ گھنی دھند میں داخل ہوئی۔ پائلٹ نے ان حالات میں 2بار طیارے کو لینڈ کرنے کی کوشش کی۔ کچھ زندہ بچ جانے والے مسافروں کے مطابق جہاز تیسری بار لینڈنگ کی کوشش میں تھا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ طیارہ سے ٹکرانے والے دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
ایک مسافر نے روسی ٹی وی کو بتایا کہ “تیسری بار، کچھ دھماکے بھی ہوے، طیارے کا کچھ حصہ اڑ گیا تھا۔ آذربائیجان کے وزیر ٹرانسپورٹ رشاد نبییف نے کہا “بغیر کسی استثنیٰ کے تمام زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ جب طیارہ گروزنی کے اوپرتھا توانہوں نے 3دھماکوں کی آوازیں سنی تھیں”۔
انہوں نے کہا کہ طیارے کو “بیرونی مداخلت” کا نشانہ بنایا گیا اور جب اس نے لینڈ کرنے کی کوشش کی تواسے اندراور باہر سے نقصان پہنچا۔ حالیہ ہفتوں میں یوکرین چیچنیا اور روسی قفقاز کے دیگرعلاقوں کو ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حادثے کے بعد ماسکو میں حکام نے کہا کہ اس طرح کے حملوں نے گروزنی کے اوپرفضائی حدود کو بند کرنے کے پروٹوکول کومتحرک کیا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق اُس صبح قریبی شمالی اوسیشیا میں ولادی کاوکازمیں ایک شاپنگ مال کے اوپرایئرڈیفنس کے ذریعے ایک ڈرون کو مارگرایا گیا تھا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ بند فضائی حدود پروٹوکول جسے “کارپٹ پلان” کہا جاتا ہے، اس سے پہلے نافذ کیا گیا تھا یا جب پرواز J2-8243 روسی فضائی حدود میں تھی تو تب؟ گروزنی کے اوپر ہونے والے واقعے کے بعد طیارہ تقریباً 450 کلومیٹر (280 میل) مشرق میں قازقستان کے اکتاو ہوائی اڈے کی طرف موڑ گیا۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اسے بحیرہ کیسپین کے اوپر کیوں موڑ دیا گیا تھا، یہ کئی دوسرے اختیارات سے کہیں زیادہ طویل سفر ہے۔ روسی ایوی ایشن حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ طیارے کے پائلٹوں کو “دوسرے ہوائی اڈوں کی پیشکش” کی گئی تھی، لیکن انہوں نے اکتاؤ کا انتخاب کیا۔
فلائٹ سے باخبر رہنے والی ویب سائٹ فلائٹ ریڈار کی طرف سے جاری کردہ ڈیٹا میں دکھایا گیا ہے کہ ہوائی اڈے سے صرف کلومیٹر کے فاصلے پر مڑنے اور کریش لینڈنگ کرنے سے پہلے جب یہ اکٹاؤ کے قریب پہنچا تو طیارہ اوپر نیچے ہوتا رہا۔
جائے وقوعہ کے قریب سے ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ہوائی جہاز زمین پر گرنے سے پہلے ہوا میں تیزی سے اترتا ہے اور شعلے کی ایک گیند میں کئی سومیٹرتک پھسلتا ہے۔ 38افراد ہلاک اور29 زندہ بچ گئے، کچھ شدید زخمی ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ زندہ بچ جانے والوں کو طیارے کے ملبے سے چلتے اوررینگتے ہوئے دیکھا گیا۔
ہوائی جہاز کے پائلٹوں کو حادثے میں ہلاک ہونے کے باوجود طیارے کے کچھ حصے کو لینڈ کرنے کا انتظام کرکے جان بچانے کا سہرا جاتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو لوگ بچ گئے ان میں سے زیادہ تراس کے عقب میں بیٹھے تھے۔ روسی میڈیا کی ابتدائی رپورٹس کے مطابق طیارہ پرندوں کے جھنڈ سے ٹکرا گیا تھا۔
تاہم ایوی ایشن ماہرین کا خیال ہے کہ طیارے کا جی پی ایس الیکٹرانک جیمنگ سے متاثر ہوا تھا اوراس کے بعد اسے روسی فضائی دفاعی میزائل دھماکوں سے شارپنل سے نقصان پہنچا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہفتے کے روز روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے آذربائیجانی ہم منصب سے طیارے کو گرائے جانے پر معافی مانگی، لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا روس اس کا اصل ذمہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ “افسوسناک واقعہ” اس وقت پیش آیا جب روسی فضائی دفاعی نظام فعال طور پر یوکرین کے ڈرون کو پسپا کر رہا تھا۔ تاہم، یوکرین کے صدر نے اصرار کیا کہ روس کو گمراہ کن افواہیں پھیلانے کے بجائے واضح بیان کے ساتھ آنا چاہیے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اس سے قبل ان خبروں پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا تھا کہ طیارے کو روسی ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ جمعہ کو وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا کو “ابتدائی اشارے” ملے ہیں کہ روس ذمہ دار ہے، لیکن اس نے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
اب تک آذربائیجان کی حکومت نے روس پر براہ راست الزام لگانے سے گریزکیا ہے۔ لیکن آذربائیجان کے حکومتی ذرائع نے خبر رساں ایجنسیوں کو بتایا کہ تحقیقات میں پہلے ہی اس ہتھیار کی شناخت ہوچکی ہے جس نے پرواز پر فائر کیا تھا، روسی Pantsir-S اینٹی ایئرکرافٹ سسٹم تھا۔
طیارے کے فلائٹ ریکارڈرز، جس میں حادثے کی وجہ کا تعین کرنے میں مدد کے لیے ڈیٹا موجود ہے، مل گیا ہے۔
باکو میں رپورٹس بتاتی ہیں کہ روس اور قازقستان دونوں نے کامن ویلتھ آف انڈیپنڈنٹ اسٹیٹس (سی آئی ایس) سے ایک کمیٹی بنانے کی تجویزپیش کی ہے۔ ایک علاقائی تنظیم حادثے کی تحقیقات کرتی ہے، لیکن آذربائیجان نے اس کے بجائے بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ مبصرین آنے والے دنوں میں اس بحث کو مزید الجھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔