واخان کوریڈور پر پاکستان کے قبضے سے متعلق سوشل میڈیا خبریں مبالغہ آرائی ہیں، فخر کاکاخیل

اتوار 5 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تناؤ بہت شدت اختیار کر گیا ہے۔ 21 دسمبر کو جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان نے 16 فوجی جوانوں کو شہید کیا جس کے بعد 24 دسمبر کی رات پاک فضائیہ نے افغان صوبے پکتیکا کے علاقے برمل میں فضائی حملے کیے جس میں بعض رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کے 49 خوارجی مارے گئے۔

گزشتہ سے پیوستہ روز بھی خارجیوں کی جانب سے پاکستان میں دراندازی کی کوشش کی گئی جو کہ بروقت جوابی کارروائی سے ناکام بنا دی گئی جس میں 15 کے قریب خارجی ہلاک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں مداخلت کرنا پاکستان کے لیے خطرناک ہے، خوشحال خان کاکڑ

اس صورتحال کے تناظر میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان صورتحال انتہائی کشیدہ اور حل کی متقاضی ہے۔ سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا کے مطابق سال 2024 میں صرف خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے 670 واقعات رپورٹ ہوئے۔

کیا پاکستان نے واخان کوریڈور پر قبضہ کر لیا ہے؟

معروف صحافی اور افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی فخر کاکا خیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع ٹی ٹی پی حملوں کی زد میں ہیں اور چترال سے ملحقہ واخان کوریڈور جس میں افغان صوبہ بدخشاں ہے وہاں بھی گولہ باری ہوئی ہے لیکن اس علاقے پر پاکستان کے قبضے کی اطلاعات، جیسا کے سوشل میڈیا پر چل رہا ہے، یہ مبالغہ آرائی ہے۔

افغانستان کے ساتھ ملحقہ شمالی بارڈر اس وقت حملوں کی زد میں ہے

فخر کاکا خیل نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ ہمارے افغانستان سے ملحقہ بارڈر پر فی الوقت امن ہے لیکن شمالی بارڈر جو کہ خیبرپختونخوا کا جنوب بنتا ہے جس میں بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو اور کوہاٹ کے علاقے شامل ہیں وہ اس وقت زیادہ حملوں کی زد میں ہے اور ٹی ٹی پی کا حافظ گل بہادر گروپ زیادہ تر اس میں ملوث ہوتا ہے۔ فخر کاکا خیل نے بتایا کہ ان ہی علاقوں میں سنہ 2021 میں ٹی ٹی پی کے طالبان کو دوبارہ لا کے بسایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک افغان جنگ فی الحال نظر نہیں آرہی، آصف درانی

24 دسمبر کو پاکستانی فضائیہ کے حملے میں مارے جانے والے خارجیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے فخر کاکاخیل نے بتایا کہ افغان طالبان نے مارے جانے والوں کے بارے میں تصدیق کی ہے کہ یہ پاکستان کے شہری تھے۔

’طالبان حکومت اخلاقی اور قانون اعتبار سے بیک فٹ پر ہے‘

انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت اس وقت بیک فٹ پر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق حملہ آور گروہوں کا پیچھا کر کے انہیں مارا جاتا ہے جس کا استعمال امریکا اکثر کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی اُصول کے تحت ایران نے پاکستان میں حملہ کیا اور پھر پاکستان نے بھی ایران میں حملہ کیا جس کی ایران نے مذمت نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ ہم تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ پاکستانی، ایران میں کیسے آئے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوں، افغان قونصل جنرل سید عبدالجبار

فخر کاکا خیل نے کہا کہ دوسری وجہ یہ کہ دوحہ مذاکرات میں طالبان نے اتفاق کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی لیکن ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف حملے کر رہی ہے۔ حال ہی میں جب پاکستانی وفد کابل گیا تو ٹی ٹی پی کی قیادت بھی وہیں موجود تھی جس کے لیے افغان طالبان سے سوال بنتا ہے کہ ٹی ٹی پی وہاں کیا رہی ہے۔

افغان طالبان ٹی ٹی پی حافظ گل بہادر گروپ کو روک کیوں نہیں پا رہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے فخر کاکاخیل نے کہا کہ 11/9 کے بعد افغانستان میں جن طالبان نے امریکا کے خلاف جنگ کی وہ پرانے کمانڈرز زیادہ تر مارے جا چکے ہیں جبکہ ان میں سے صرف حافظ گل بہادر ہی ان پرانے کمانڈرز میں شمار ہوتا ہے جو اب تک زندہ ہے اور لڑ رہے ہیں۔

فخر کاکا خیل نے بتایا کہ حافظ گل بہادر حقانی نیٹ ورک کا اہم حصہ رہ چکے ہیں اور 20 سالوں میں اس کے سینکڑوں ہزاروں حملہ آوروں نے امریکا کے خلاف حملے کیے ہیں۔ اب وہ طالبان سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو کابل پر تم لوگ حکومت بنا کر بیٹھے ہو اس میں ہمارا حصہ شامل ہے اور طالبان اس بات سے انکار نہیں کر سکتے۔

کیا جرگے سے معاملہ حل کیا جاسکتا ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے فخر کاکاخیل کا کہنا تھا کہ خلیل حقانی جو طالبان کابینہ میں وزیر تھے اور طالبان کے اندر اچھے اثر رسوخ کے حامل تھے، ان کے ذریعے سے جرگہ کر کے یہ کہا جا سکتا تھا کہ ٹی ٹی پی کے جو جنگجو جو سالوں سے افغانستان میں پناہ گزین ہیں اور پاکستان واپس نہیں آنا چاہتے، اُن کو پاکستانی بارڈر سے دور افغانستان کے مغرب یا وسط میں کہیں آباد کیا جائے تاکہ وہ افغان معاشرے میں گھل مل کر رہ سکیں لیکن بدقسمتی سے داعش نے خلیل حقانی کو نشانہ بنا دیا اور اب مذاکرات میں ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی اب مقامی نہیں علاقائی بلکہ عالمی مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔

فخر کاکاخیل نے بتایا کہ حال میں میں طالبان عبوری حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان طالبان کو پاکستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں سے اٹھا کر افغانستان کے دوسرے علاقوں میں آباد کیا جائے، اگر ٹی ٹی پی کے مسئلے کو علاقائی تناظر میں دیکھا جائے اور چین کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ممالک بھی اس میں شامل ہوں، طالبان کی دوسرے علاقوں میں آبادکاری کی جائے ان کو روزگار فراہم کیا جائے تو میری رائے میں یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔

’افغان طالبان پاکستان کے زیراثر ہونے کے تاثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں‘

فخر کاکاخیل نے بتایا کہ پاکستان کے فضائی حملوں کے بعد افغان طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے تندوتیز بیانات کے لیے پاکستان قصور وار ہے کیونکہ 15 اگست 2021 جب اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے کابل میں یہ کہا کہ ’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘ تو عالمی سطح پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ افغان طالبان پاکستان کے پراکسی ہیں، اس حوالے سے عالمی سطح پر بھی اندرونی سطح پر بھی ان پر تنقید ہوتی ہے اور وہ اس تاثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے زیرِاثر کوئی گروہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری نادانیوں کی وجہ یہ چھاپ لگی ہے کہ پاکستان ہی طالبان کو لے کر آیا ہے حالانکہ نہ یہ ماضی میں درست تھا نہ اب درست ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان حکومت نے کھڑکیوں پر پابندی کیوں لگائی؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات جب بھی کامیابی کی طرف بڑھتے ہیں تو بیرون مُلک بیٹھے ہوئے افغانی کہنے لگتے ہیں کہ یہ طالبان، پاکستان ہی کا ایک پروجیکٹ ہے اور پھر طالبان کو اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے بھی ایسے بیانات دینے پڑتے ہیں۔

’پچھلے 20 سال میں ہزاروں افغان نوجوانوں کی بھارت میں ذہن سازی کی گئی‘

فخر کاکاخیل نے بتایا کہ پچھلے 20 سال کے دوران ہزاروں افغان نوجوانوں کو بھارت لے جا کر اُن کو تعلیم دی گئی یا افغان فوجیوں کی تربیت کی گئی لیکن بھارت نے کبھی اس کو اون نہیں کیا لیکن ہمارے کچھ نادان دوستوں نے پچھلے سالوں میں کئی بار طالبان کو اون کیا۔

’پاک افغان مسئلے کی 80 فیصد وجہ بارڈر کی بندش ہے‘

فخر کاکاخیل نے کہا کہ اُن کی رائے میں اسلام آباد اور کابل کے مابین تلخی کی 80 فیصد جڑ بارڈر کا بند ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا کہنا ہے کہ پاکستان آئے روز بارڈر بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے اربوں روپے کے خشک میوہ جات اور سبزیاں پاکستان نہیں پہنچ پاتے اور پھر ہمیں ایران کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران جانے کے لیے افغانستان کے پاس صرف ایک راستہ جبکہ پاکستان کے ساتھ ان کے 6 کے قریب رستے کھلتے ہیں اس لیے افغان تاجر کہتے ہیں کہ ایران جانا ہمیں بالکل بھی درست نہیں لگتا۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان نے افغانستان پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے برادر ملک سے بات چیت پر زور دیا، حامد رضا

ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کی جڑ اقتصادی ہے اور پاکستان کو چاہیے کہ تجارت اور سیاست کو مدغم نہ کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر بارڈر کھلے رہتے ہیں اور تجارت چلتی رہتی ہے تو ممکن ہے افغان طالبان اس حد تک نہ جائیں۔

’افغان طالبان ٹی ٹی پی کے مالی ذرائع منقطع کرنے کے لائق نہیں‘

فخر کاکاخیل نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کا ذریعہ آمدن منشیات، اغوا برائے تاوان اور جرائم سے ہونے والی آمدنی ہے جس کا بینکنگ نظام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ سارا لین دین ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے سے چلتا ہے اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کار اُن کی مدد کرتے ہیں۔ غیر ملکی ایجنسیاں بھی انہیں ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے سے مدد کرتی ہیں۔

کیا پی ٹی آئی حکومت دہشتگردی کے مسئلے پر سنجیدہ ہے؟

اس سوال کے جواب میں فخر کاکاخیل نے کہا کہ بدقسمتی سے فوج جن علاقوں میں آپریشن کرتی ہے وہاں کی نوجوان نسل کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا سول انتظامیہ کہ ذمے داری ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی ساری توجہ قیدی نمبر 804 ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری صوبائی اسمبلی میں کسی دوسری بات پر نہ کوئی بات ہوتی ہے نہ کسی اور چیز کے بارے میں بحث کی جاتی ہے اور یہ مسئلہ نہ تو صوبائی اور نہ ہی وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

’دہشت گردی میں فری لانسنگ ایک خطرناک صورتحال ہے‘

فخر کاکاخیل نے کہ پچھلے کچھ عرصے میں دہشت گردی کے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کی ذمے داری کسی نے نہیں لی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کرائے کے فوجی یا فری لانسسرز ہوتے ہیں اور ہم نے دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں کے نوجوانوں کو انگیج نہیں کیا جبکہ دوسری طرف افغانستان میں جہاں نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کیا گیا وہاں اُن کے پاس روزگار ہے نہیں اب جب پاکستان کے پاس بارڈر بند ہو جاتا ہے تو روزگار بالکل ختم ہو جاتا ہے اور انڈسٹری وہاں ہے نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم معاشی مواقع کو فروغ نہیں دیتے ایسے نوجوان کسی کے بھی خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

بھارت نے دوبارہ جنگ کی کوشش کی تو اسکور 0-6 سے بھی بہتر ہوگا، خواجہ آصف

پاکستانی ویمن ٹیم بھارت سے ورلڈ کپ ٹاکرے کے لیے تیار، اعتماد ہتھیار ہے، پاکستانی کپتان فاطمہ ثنا

کدو اب نظر انداز نہیں ہوگا، اسکردو میں منفرد ’کدو فیسٹیول‘

علم بانٹنے والے معاشرے کے معماروں کو سلام، 5 اکتوبر استاد کا عالمی دن

’سعودی وژن 2030 اور دفاعی معاہدہ پاکستان کے لیے ممکنہ ترقی کی نوید ثابت ہو سکتے ہیں‘

ویڈیو

کدو اب نظر انداز نہیں ہوگا، اسکردو میں منفرد ’کدو فیسٹیول‘

علم بانٹنے والے معاشرے کے معماروں کو سلام، 5 اکتوبر استاد کا عالمی دن

نیتن یاہو نے اسلامی ممالک کے 20 نکات ٹرمپ سے کیسے تبدیل کروائے؟ نصرت جاوید کے انکشافات

کالم / تجزیہ

لاہور کی تاریخی آندھی، جب دن کے وقت رات ہوگئی

بچے اکیلے نہیں جاتے

جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی