پاک افغان جنگ فی الحال نظر نہیں آرہی، آصف درانی

ہفتہ 4 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ’دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، سرحد پار سے حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا اور فتنہ خوارج کا مکمل خاتمہ کرنے کا وقت آگیا ہے‘۔

شہباز شریف کا بیان کتنی اہمیت کا حامل ہے اور کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان فی الفور جنگ کا کوئی خطرہ ہے اس بارے میں وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے بہرحال ہمیں مسئلہ درپیش ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان بھی ٹی ٹی پی کی تشکیلات میں شامل ہو جاتے ہیں جو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں حملے کرتے ہیں۔

آصف درانی نے کہا کہ ٹی ٹی پی کا وجود تو بہت پہلے سے تھا لیکن جب سے افغان طالبان حکومت میں آئے ہیں تو اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ دہشتگردی میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے اور ایسی صورتحال کوئی بھی ملک برداشت نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، سرحد پار سے حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا، وزیراعظم شہباز شریف

پاک افغان مسئلے کے حل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم چیز پاکستان کو اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے کیوں کہ جب ہم اپنے ملک میں قانون کا احترام کریں گے تو بیرونی دنیا بھی ہمارے ملک کا اور یہاں کے قانون کا احترام کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تجارت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جس کے ذریعے تعلقات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں۔

پاک افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک کی کیا وجہ ہے؟

سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے کہا کہ اس طرح کی صورتحال میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کنٹرول سے باہر ہوتی ہیں اور وہ مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو پاکستان کے کنٹرول میں بھی نہیں ہیں جیسے کہ ٹی ٹی پی جو ہمارے اپنے بارڈرز کے اندر بھی ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے اور وہاں افغان طالبان بھی ان کو ختم کرنے کے لیے یا تو پوری طرح سے یکسو نہیں یا ان میں بھی صلاحیت کا فقدان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جن کو بنانے میں ہمارے لوگ شامل تھے اور اب یہ ہمارے لیے عفریت بن چکے ہیں۔

آصف درانی نے کہا کہ میرے نزدیک اگر ٹی ٹی پی کو ختم کرنا ہے تو پہلے ہماری حدود میں واقع ان کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب یہاں پر ان کے محفوظ ٹھکانے ختم ہو گئے تو اس کے بعد وہ افغانستان سے حملہ بھی کریں گے تو غیر مؤثر ہی رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کو اگر یہاں پر گراؤنڈ میسر نہ ہو اور مقامی لوگ پناہ نہ دیں، پولیس اور انٹیلی جنس نظام بہتر ہو اور سیاسی عناصر اس مسئلے کی اونرشپ لیں تو اس مسئلے کا تدارک ممکن ہے۔

کیا افغان طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے آصف درانی نے کہا کہ میرے نزدیک اس وقت جو افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے وہ چیزوں کو ٹالنا چاہتی ہے جس طرح وہ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بھی کہہ رہے ہیں کہ پالیسی بنا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ساڑھے 3 سال سے پالیسی ہی بن رہی ہے اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پوری نسل اس عمل میں گزر جائے گی اس دوران میں جو لڑکیاں ہیں وہ نہ ڈاکٹر بن سکیں گی اور نہ ہی دوسرے کسی شعبے میں جا سکیں گی تو ملک کا بنے گا کیا؟

مزید پڑھیے: مختلف ادوار میں پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد، اب کتنے رہ گئے؟

انہوں نے کہا کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ مسائل کو ٹال کر وہ انہیں ختم کر لیں گے لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عسکری کارروائیاں کرنا یا جنگ کرنا کچھ اور بات ہے اس میں آپ کی ذمے داری نہیں ہوتی آپ اپنے ہدف پر حملہ کرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں لیکن اب تو آپ حکومت میں ہیں اور اس میں آپ ہر چیز کے ذمے دار ہیں اور آپ ملک کے اندرونی حالات کے بھی ذمے دار ہیں۔

کیا دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ ہے؟

آصف درانی نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا دونوں ملکوں کے درمیاں جنگ کا کوئی خطرہ ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم کے ذرائع اہم ہوں گے لیکن پھر وہ سیدھی طرح سے بتا دیں لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا۔

پاک افغان مسئلے کی جڑ کیا ہے؟

آصف درانی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہے اور افغان بادشاہ ظاہر شاہ سے لے کر ہر دور میں یہ مسائل رہے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کی سرحد بہت منفرد ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرحدیں 5 دیگر ملکوں کے ساتھ بھی ملتی ہیں لیکن وہاں یہ مسائل نہیں ہیں کیونکہ وہاں قبائلی لوگ اس طرح سے سرحد کے دونوں جانب نہیں رہتے جس طرح پاکستان اور افغانستان میں ہیں جو ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں غالب اکثریت پشتونوں کی ہے اور ان کا آپس میں ایک تعلق ہے۔

کیا پاکستان نے واخان کوریڈور پر قبضہ کر لیا ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے آصف درانی اس بات کو لغو اور بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا نے ایسا تاثر پیدا کر دیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گویا کل جنگ چھڑ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کا ذمے دار سوشل میڈیا ہے لہٰذا ہمارے ہاں سنجیدہ عناصر کو چاہیے کہ اس طرح کی افواہوں کو علی الاعلان مسترد کر دیں۔

طالبان کو واپس کون لے کر آیا اسٹیبلشمنٹ یا تحریک انصاف حکومت؟

جب آصف درانی سے پوچھا گیا کہ طالبان کو پاکستان میں واپس کون لے کر آیا اسٹیبلشمنٹ یا تحریک انصاف حکومت تو اس پر ان کا جواب تھا کہ وہ اس بات پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کریں گے۔

پاک افغان مسئلے کا پائیدار حل کیا ہے؟

آصف درانی نے کہا کہ نہ یہ مسئلہ ایک دن میں بنا تھا اور نہ یہ ایک دن میں حل ہو گا اس کے لیے صبر کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور اس میں ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا پڑے گا جو مجاہدین جیسے گروپس ہم پالتے رہے ان سے بچنا ہو گا۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کے مابین دو سہیلیوں کا جھگڑا تو نہیں، نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی

انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹی ٹی پی کو بھی ایکسپوز کرنا پڑے گا کہ یہ لوگ نہ دین جانتے ہیں اور نہ اسلام تاکہ عوام کے اندر سے ان کی حمایت ختم کی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ایسے اقدامات نہیں کیے گئے کہ ٹی ٹی پی کو ایکسپوز کیا جا سکے کہ یہ ٹھگ ہیں اور بدمعاشی سے اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp