ہیرے

بدھ 19 اپریل 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پھر ہوا یوں کہ ایک خبر اچانک دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنی جس سے ہر طرف تہلکہ مچ گیا۔ خبر بھی پاکستان کے متعلق تھی، پاکستان کے متعلق عموماً دنیا کے خبر رساں ادارے کسی اچھی خبر سے گریز کرتے ہیں۔ بات دہشتگردی سے شروع ہوکر معاشی بدحالی پر تمام ہوتی ہے اور اس قبیل کی خبریں ریٹنگ بھی زیادہ لیتی ہیں، مگر جس خبر کا تذکرہ مطلوب ہے وہ خبر خوش کُن ہی نہیں حیران کُن بھی تھی، تبھی تو یہ خبر چند لمحوں اور مختصر ساعتوں میں کُل عالم کی امیدوں کا مرکز بن گئی۔

وہ ممالک جو پاکستان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اب وہی اس کی چاہت میں گرفتار ہوگئے۔ وہ ممالک جن کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے نہیں کرتی تھی انہی ممالک کے شائقین جوق در جوق پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔ امیگریشن والوں کی چھٹیاں منسوخ ہوگئیں۔ پاکستانی ویزے کے حصول کے لیے سفارشیں ہونے لگیں، کئی ممالک کے سفارتخانے سرگرم ہوگئے۔ ہوٹلوں میں بکنگ ملنا محال ہوگیا۔ ایئرپورٹ پر بس اڈوں کا سا رش لگ گیا۔ یوں لگتا تھا دنیا کے سب قافلے ایک ہی منزل کی جانب گامزن ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہےکہ آثارِ قدیمہ کے کچھ نابغۂ روزگار ماہرین نے جانے کیسے یہ دریافت کیا کہ پاکستان کے ایک شہر کی مٹی میں ایک خزینہ دفن ہے۔ جس میں جواہرات اتنے بیش قیمت ہیں کہ ان سے کسی ایک شخص، خاندان یا گروہ ہی کے نہیں بلکہ ملک بھر کے دلدر دور ہوجائیں گے۔

اس خزانے کا مول جاننا چاہا تو جواب ملا یہ انمول ہے، تاہم اپنی مثال آپ یہ گنجینہ ہنوز زیرِ خاک ہے۔ اس کی تلاش جان جوکھم کا کام ہے، تاہم جو ہمت کرے گا وہ من کی مراد پائے گا، وہ تمام عمر بیٹھ کر ہی نہیں کھائے گا بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کے عیش و آرام کا سامان بھی کرجائے گا۔

دنیا کی اسٹاک مارکیٹس میں ان نادیدہ انمول جواہرات کے شیئرز کا کاروبار شروع ہوگیا، ان پر بڑے بڑے سرمایہ دار اور گُرگ بازار سٹہ لگانے لگے۔ کچھ نے ان کی خیالی تصویر اتاری تو کچھ ان کے خیالی خاکوں کی قیمت پر لٹو ہوگئے۔ کچھ محققین نے ان کی دریافت کو تاریخ انسانی کا ایک اہم قدم قرار دیا اور کچھ ان کے حصول کی خاطر گھر بار کو خیرباد کہہ کر عازمِ پاکستان ہوئے۔ جو پاکستان نہیں آسکے وہ ان جواہرات سے متعلق دنیا بھر میں نشر ہوتی لائیو خبروں کے سامنے ’ہمہ تن گوش‘ بیٹھے رہے۔

چونکہ ابتدائی رپورٹس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ جواہرات نہ ہڑپہ میں ہیں نہ موئن جو دڑو میں، نہ ٹیکسلا میں ہیں اور نہ ہی بلوچستان میں۔ اس خزانے کا مرکز پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد ہے۔ بیرونِ ممالک سے جو لوگ خزانے کی تلاش میں آئے سو آئے پاکستان بھر کے لوگ اسلام آباد کی جانب دوڑ پڑے اور اس حال میں اسلام آباد پہنچے کہ کسی نے پھاوڑا پکڑا ہوا تھا اور کسی نے بیلچہ تھاما ہوا تھا جبکہ بہت سے ایسے بھی تھے جو خالی بوریوں کے ساتھ آئے تھے کہ واپسی میں زر و جواہر سے بھری ہوں گی۔

پھر آنے والے یونہی نہیں آگئے تھے، انہیں بھی پردیسیوں کی طرح اسلام آباد تک پہنچنے میں خاصے کٹھن و کٹھور مراحل طے کرنا پڑے تھے۔ کوئی ہوائی جہاز سے پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا تو کسی کو بمشکل ٹرین میں پاؤں دھرنے کی جگہ ملی تھی، بہت سے تھے جو بسوں کی چھتوں پر خاک پھانکتے یہاں تک پہنچے تھے اور کئی تھے جو موٹرسائیکلوں ہی پر عازم اسلام آباد ہوگئے تھے، پھر بات یہیں تمام نہیں ہوئی اس لیے کہ جسے کوئی سواری نصیب نہیں ہوئی اس نے پوٹلی میں 2 روٹیاں بطورِ زاد راہ باندھیں اور خراماں خراماں چل پڑا۔

عموماً جلسوں کے انعقاد سے پہلے دیواروں پر لکھا جاتا ہے کہ چلو چلو اسلام آباد چلو، مگر اس دفعہ نہ کسی جلسے کا اعلان ہوا نہ کسی سیاسی لیڈر نے کال دی، اس کے باوجود سارے قافلے اسلام آباد کی جانب چل نکلے۔ ہر ایک کو یہ دُھن تھی کہ وہ دوسرے سے پہلے پہنچے تاکہ زیادہ سے زیادہ جواہر سمیٹ سکے۔

دنیا بھر کے چینلز خزانے کی تلاش سے متعلق ہونے والی کوششوں پر مبنی خبریں لمحہ بہ لمحہ نشر کر رہے تھے جبکہ ان خبروں پر مسلسل نظریں جمائے افراد کا اشتیاق و اضطراب تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔

آخری اطلاعات کے مطابق یہ خزینہ شاہراہِ دستور کے قریب کہیں دفن تھا۔ جس کے پڑوس میں قومی اسمبلی اور صدارتی محل تھا۔ سیٹلائٹ کی مدد سے خزانے کی درست جگہ کا بار بار اعلان کیا جا رہا تھا۔ درست مقام کے تعین کے بعد ہی کھدائی کا عمل شروع ہونا تھا۔ خلا کی وسعتوں میں موجود ترقی یافتہ ممالک کے سیٹلائٹ اس تلاش میں مسلسل مدد کر رہے تھے۔ کروڑوں لوگ امیدوں کے چراغ جلائے بیٹھے تھے، لاکھوں تھے جو اسلام آباد کے مرکز کی جانب گامزن تھے۔ عوام کا جذبۂ شوق دیدنی تھا۔ ایک ہجوم پھاوڑوں، کدالوں، ٹریکٹروں اور کھدائی کی جدید مشینوں کے ساتھ مطلوبہ مقام کی جانب گامزن تھا۔ سب کو جلدی تھی، کوئی اس نعمت سے محروم نہیں رہنا چاہتا تھا۔ ہر کسی کو اپنے دلدر دُور کرنے کی تمنا تھی اور ہر کوئی اپنی قسمت کا پانسا پلٹنا چاہتا تھا۔

خدا خدا کرکے پوشیدہ خزانے کی جگہ کا تعین ہوا۔ لوگ آلات کھدائی سمیت اس جگہ پر پِل پڑے۔ زمین سخت تھی تاہم لوگوں کا جذبہ اس سے زیادہ سخت جان ثابت ہوا۔ کھدائی شروع ہوئی اور پھر ہوتی ہی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سنگلاخ زمین گزوں گہرائی تک کھود دی گئی۔ لیکن خزینہ شاید اس سے بہت نیچے دفن تھا۔

لوگ خزانے کی چاہ میں کھدائی کرتے رہے کہ اچانک ایک مزدور کی کدال سے کوئی سخت چیز ٹکرائی اور ’ٹن‘ کی آواز آئی۔ اس ’ٹن‘ کی آواز پر ہر چینل نے بریکنگ نیوز چلائی۔ نہایت احتیاط سے کھدائی جاری رکھی گئی۔ زمین کی پنہائیوں سے مٹی میں اٹا ایک صندوق دریافت ہوا۔ کرینوں کی مدد سے اس بھاری بھر کم صندوق کو سطح زمین پر لایا گیا۔ صندوق پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ صندوق سے گرد ہٹائی تو اس پر جلی حروف سے ’ہیرے‘ لکھا تھا۔ بصد دشواری جب صندوق کا تالا توڑا گیا تو اس میں فقط ’آٹھ کے بینچ‘ کی تصویر دھری تھی۔ حیرت اس بات پر تھی کہ اس ازمنۂ وسطیٰ صندوق کی دیواروں پر ٹرک کی جدید تصاویر نقش تھیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سیاست، روحانیت اور اسٹیبلشمنٹ کا متنازع امتزاج،  عمران خان اور بشریٰ بی بی پر اکانومسٹ کی رپورٹ

برازیلی انفلوئنسر عمارت کی چھت سے گر کر ہلاک

لیڈی ریڈنگ اسپتال میں آتشزدگی، بروقت کارروائی سے صورتحال پر قابو پا لیا گیا

شاباش گرین شرٹس! محسن نقوی کی ون ڈے سیریز جیتنے پر قومی ٹیم کو مبارکباد، سری لنکا کا بھی شکریہ

بابر اعظم کا ایک اور سنگ میل، پاکستان کے جانب سے سب سے زیادہ ون ڈے سینچریوں کا ریکارڈ برابر کردیا

ویڈیو

سپریم کورٹ ججز کے استعفے، پی ٹی آئی کے لیے بُری خبر آگئی

آئینی ترمیم نے ہوش اڑا دیے، 2 ججز نے استعفیٰ کیوں دیا؟ نصرت جاوید کے انکشافات

اسلام آباد کے صفا گولڈ مال میں مفت شوگر ٹیسٹ کی سہولت

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے