They can’t beat us at the ballot box so they try to beat us through the law
وہ ہمیں بیلٹ بکس یعنی الیکشن کے ذریعے تو ہرا نہیں سکتے اسلئے انہوں نے ہمیں قانون کے ذریعے سے ہرانے کی کوشش کی،یہ بیان یقینا آپ کو سنا سنا لگا ہوگا بلکہ آجکل تو روز ہی سننے کو ملتا ہے لیکن دھیرج رکھئے کیونکہ یہ بیان ہمارے خان صاحب کا نہیں بلکہ سپر پاور مانے جانے والی ریاست امریکہ کے سابقہ صدر ڈونلڈ جان ٹرمپ کا ہے جو آج کل قانون کی گرفت میں ہیں اور ایسے بیانات بلاجھجھک دے رہے ہیں جن پر شاید ہمارے یہاں contempt of courtلگادی جائے.
ٹرمپ ایسے بیانات ناصرف اپنے جلسوں میں دیتے ہیں بلکہ وہ سوشل میڈیا پر بھی اپنے خلاف عدالتی کاروائی پر تنقید کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض بیانات تو دھمکی کے زمرے میں بھی آتے ہیں لیکن ابھی تک عدلیہ کی جانب سے ان کے خلاف اس حوالے سے کوئی کاروائی نہیں کی گئی ماسوائے جج کی جانب سے ایک تنبیہ۔
یہ معاملہ ہے کیا اور کیوں سابق صدر ایسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ یکایک ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے ؟بات دراصل یہ ہے کہ جون 14، 1946 میں پیدا ہونے والے 45 ویں امریکی صدر ڈونلڈ جان ٹرمپ اس وقت 77 برس کے ہو نے والے ہیں، ان کی وجہ شہرت جہا ں ایک سیاست دان، میڈیا پرسن، اور تاجر کی ہے، وہیں موصوف اپنی حد درجہ خود پسندی و خود مختاری ،ہٹ دھرمی ،انتہاپسندی و متعصبانہ سوچ کے سبب امریکی سیاست میں بھی خاصے ممتاز ہیں۔
گزشتہ دنوں جب ادھر پاکستان میں عدلیہ بحران میں عوام پنجوں پہ کھڑی سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر تھی ،(جس میں چیف جسٹس (پاکستان )عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے 8 اکتوبر کو انتخابات کروانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر حکم دیا ہے کہ پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو کروائے جائیں)، عین اس وقت امریکہ میں بھی ان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ رونما ہونے جارہا تھا ،یعنی پہلی بار کسی امریکی صدر کو مبینہ طور پر مجرمانہ عمل کی وجہ سے گرفتار کیا جانا تھا۔
سابق امریکی صدر کو کرپشن،جنسی تعلقات اور الیکشن میں بددیانتی جیسے متعدد الزامات کا سامنا ہے ،اور ان میں سے بعض الزامات کی تحقیقات کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا جب سابق صدر ٹرمپ ابھی وائٹ ہاؤس میں ہی تھے ۔یہ تحقیقات مین ہٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر کی جانب سے کروائی گیئں اور بعد ازاں مین ہیٹن کی ایک گرینڈ جیوری نے ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے کے حق میں ووٹ دیا جس کے بعد عدالت کی جانب سے سابق صدر کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کے لئے پولیس حرکت میں آ گئی اور 4 اپریل بروز منگل موصوف کو عدالت کے روبرو پیش کردیا گیا ۔
دعوی کیا جاتا ہےکہ یہ امریکی تاریخ کا پہلا واقع ہے جب کسی امریکی صدر پہ دوران حکومت تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور قریب پانچ سال کی تحقیقات کے بعد عوام میں منتخب نمائیندوں پر مبنی گرینڈ جیوری نے فرد جرم عائد کرنے کے حق میں ووٹ دے دیا ،ان پر الزامات تو بہت سارے ہیں جیسا کہ صرف کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی کے تقریبا 34 سنگین نوعیت کے الزامات ہیں۔
پھر ایک الزام ان پر ناجائز جنسی تعلقات کا بھی ہے اور یہ بھی بتاتی چلوں کہ امریکی قانون میں جنسی تعلقات رکھنا یوں تو جرم نہیں لیکن یہ تب جرم بن جاتا ھے جب کوئی شادی شدہ ہو اور موصوف نے 2016 کے انتخابات سے قبل دو ایسی خواتین کو اپنے اور ان کے جنسی تعلق کی اشاعت کو روکنے کے لیے ہش منی کا استعمال کیا یعنی ان خواتین کو چپ رہنے کی قیمت دے گئی یا کوشش کی گئی۔
جن میں سے ایک پورن سٹار اور دوسری معروف ماڈل ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک اور الزام ان کے گھر سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کا بھی ہے جس پر ممکن ہے کہ آئیندہ پیشی میں بات ہو۔
س کے علاوہ ان پر ایک الزام انتخابی قوانین کی خلاف ورزی اور پھر اسے چھپانے کا بھی ہے ،اس الزام میں بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے باقاعدہ ایک اسکیم بنائی جسے “catch and kill”کا نام دیا گیا،یہ “پکڑو اور مارو” مخالفین کے لئے نہیں بلکہ خود ٹرمپ کی بد اخلاقیاں اور جرائم تھے جس میں وہ صحافیوں اور دیگر گواہوں کو پیسے کے بل پر خرید کر اپنے خلاف ثبوت مٹانے کا کام کرواتے رہے .
آپ کو ایسا لگ رہا ہوگا کہ یہ تو اپنے ملک کی کہانی معلوم ہوتی ہے تو حوصلہ کیجئے کیونکہ اس کیس میں ایسا نہیں البتہ یہ تسلی ضرور دل کو دیجئے کہ ترقی میں اگر آپ امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو کیا ہوا ،جرائم میں تو ہم بھی ان کے ہم پلہ ہی ہیں ، بحرحال تو ٹرپ نے اپنی ان منفی کاروائیوں کو دبانے
کے لئے جو پیسہ خرچ کیا وہ انتخابی قوانین کی خلاف ورزی میں آتا ہے۔
یہ جو پیسہ خرچ کیا گیا یہ عین ان کے دور اقتدار میں باقاعدہ قسطوں کی شکل میں ان مخصوص وکلاء اور اشخاص کو جاری کیا گیا جو اس جرم میں معاون تھے ۔پھر انہیں کاروباری ادائیگیوں میں چھپانے کی کوشش کی گئی۔امریکی اخباروں اور نیوز چینلز کا دعوی ہے کہ ان ادائیگئوں کی مد میں جو چیک ادا ہوئے ان کی تعداد 11 ہے اور یہ سب الیکشن جیتنے کے بعد ادا کئے گئے۔
کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ کا یہ عمل امریکی عوام کے ساتھ بھی دھوکہ میں شمار ہے کیونکہ الیکشن سے قبل عوام کے سامنے اگر ٹرمپ کا یہ کردار ہوتا تو شاید وہ انتخابات میں کامیاب نہ ہوتے۔یوں تو نیویارک میں جہاں یہ کاروباری جرائم ہوئے وہاں جعل سازی کی سزا زیادہ سے زیادہ ایک سال اور حقائق چھپانے کی سزا تقریبا چار سال تک ہے ،البتہ سزا کے باجود بھی ٹرمپ الیکشن لڑنے کے اہل رہ سکتے ہیں۔ امریکی آئین کے مطابق کسی کا مجرمانہ ریکارڈ اس کی صدر بننے کی اہلیت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
چاہے انہوں نے اپنے مخالفین جیسے کہ سابق امریکی صدر جوبائیڈن کی جیت کو بدلنے کے لیے 2020 کے انتخابات میں جنوبی ریاست جارجیا کے حکام پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہی کی ہو اور اس ضمن میں یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ایک ٹیپ شدہ فون کال بھی تحقیقی مراحل میں ہے۔ جس میں انھوں نے نتائج کو تبدیل کرنے کے لئے سیکریٹری آف اسٹیٹ سے مدد مانگی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ٹرمپ اس وقت عدلیہ ٹریپ میں ہیں۔
سابق امریکی صدر کو4 اپریل کی پیشی کے بعد وقتی طور پر رہائی تو مل گئی مگر ابھی ان کا ٹرائل ہوگا جس کے بعد الزامات ثابت ہونے کی صورت میں ڈونلڈ ترمپ کو سزا سنائی جاسکتی ہے ،اب اگلی پیشی کا وقت 4 دسمبر مقرر کیا گیا ہے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔
ٹرمپ نے خود پر لگائے جانے والے الزامات و جرائم کو ماننے سے انکارکیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوں نے بلا خوف و خطر اپنے عوام کو ان لوگوں سے بچایا جو انہیں تباہ کرنا چاہتے ہیں !