سعودی عرب میں مملکت کے ویژن 2023 کے منصوبوں کے تحت سینیما گھروں پر عائد 35 سالہ پابندی ہٹے آج پورے 5 برس بیت چکے ہیں جس کے بعد سے بڑی اسکرین پر ہالی ووڈ کی فلموں نے ملک کے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے فیصلے کے تحت سعودی عرب میں کام کرنے والے پہلے سینیما امریکن چین اے ایم سی انٹرٹینمنٹ نے 18 اپریل 2018 کو ریاض میں مارول کے ’بلیک پینتھر‘ کی تاریخی پہلی اسکریننگ کی جس کے ساتھ سینما انڈسٹری کے دروازے دوبارہ کھل گئے۔
تھیٹر چینز کے لیے ملک بھر میں سینیما گھروں اور اسکرینوں کی ایک بڑی تعداد کا راستہ اب ہموار ہے جس کے بعد دیگر بڑے نام بشمول ووکس سینیما، عمارز ریئل سینیما اور مووی سینیما بھی سامنے آئے ہیں۔
مووی سینیما کے سی ای او ایڈن کوئن کا کہنا ہے کہ یہ پہلا ملکی سینیما برانڈ تھا اجو اب ملک بھر میں درجنوں سینیما گھر اور سینکڑوں اسکرینز چلاتا ہے۔
ایڈن کوئن نے بتایا کہ مووی سینیما کی اس وقت 21 مقامات پر205 اسکرینیں ہیں اور وہ مملکت کے 10 مختلف شہروں میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی اسکرین اور مارکیٹ شیئر دونوں میں نمایاں ہے جس میں 1,000 سے زیادہ ٹیم ممبرز ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزید پانچ مقامات 2023 میں کھلنے والے ہیں اور پائپ لائن میں مزید پریمیم مقامات ہیں۔
معیار کا جائزہ
ایڈن کوئن نے کہا کہ سعودی عرب میں سینما کی پیشکش عالمی معیار کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مارکیٹ میں سب سے پرانا سنیما صرف 5 سال پرانا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ پوری مملکت میں ٹیکنالوجی کے جدید تجربات دیکھتے ہیں۔”
ایڈن کے مطابق ’ٹاپ گن ماورک‘ کو باکس آفس پر بے حد پزیرائی ملی جس میں ٹام کروز نے کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپائیڈرمین نو وے ہوم (ہالی ووڈ) دوسرے نمبر پر اور اس کے بعد بحبک (مصری)، ستار (سعودی) اور وقفہ رجالہ (مصری) کا نمبر آتا ہے۔
مقامی فلمیں
باکس آفس کے اعداد و شمار مقامی فلموں کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں جو سنیما پر پابندی ہٹانے کے بعد سے بڑھ گئی ہے۔ سنہ 2018 تک مملکت کے فلمی علمبرداروں کو اپنے کام دکھانے کے لیے غیر ملکی بازاروں پر توجہ مرکوز کرنی پڑی۔
سعودی تفریحی کمپنی ایم سی بی نے مملکت میں مزید مقامی فلمیں بنانے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
ایڈن کا کہنا ہے کہ ملکی فلموں کی مضبوط مانگ کو دیکھ کر ان کی کمپنی نے سعودی اور علاقائی فلموں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مووی اسٹوڈیوز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے ملکی سطح پہ بننے والی دو فلمیں ریلیز کی ہیں جنہوں نے سنہ 2023 میں سعودی باکس آفس پر 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ کما لیا ہے۔
مووی اسٹوڈیوز کی پہلی سعودی فلم ستار اب تک کی سب سے نمایاں سعودی فلم ہے اور سعودی عرب میں سینیما گھروں کے دوبارہ کھلنے کے بعد ریلیز ہونے والی تمام فلموں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ مووی اسٹوڈیو کی پہلی مصری فلم اور سعودی باکس آفس پر 37 ویں نمبر پر آنے والی ’اتننین للایجار‘ کو سعودی ناظرین کی طرف سے پذیرائی ملی جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ یہاں ہر سال 400 سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوتی ہیں۔
تاریخی لمحہ
سعودی شہریوں کا کہنا ہے کہ پابندی اٹھانے سے بہت بڑا اثر ہوا ہے۔ سعودی عرب میں پیدا اور پرورش پانے والے موسیٰ فارس کا کہنا ہے کہ پابندی ہٹائے جانے کی خبر سے کافی جوش و خروش پیدا ہوگیا تھا اور لوگ تفریحی پارک میں جانے والے بچوں کی طرح خوش تھے اور بڑی بیتابی سے سعودی سنییما میں اپنی فلم دیکھنے کا انتظار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ہفتوں تک انتظار کیا پھر بعد میں مزید تفریحی اختیارات کا اعلان کیا گیا اور سعودی سیزن کا آغاز بھی ہوا جو خوش آئند ہے۔
’ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی‘
سعودی شہری عبدالرحمن حامد علی ابراہیمی نے بھی پابندی ہٹائے جانے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک دیرینہ خواہش تھی جو پوری ہوئی اور لوگ اس فیصلے سے بہت خوش تھے۔
علی براہیمی نے کہا ’دیگر خلیجی ممالک میں یہ سہولت دستیاب تھی اور بہت سے سعودیوں کے لیے ان ممالک کے سینیما گھروں میں فلمیں دیکھنا ان کی سفری فہرست میں ایک لازمی چیز تھی‘۔
بعد ازاں اپریل 2019 میں سعودی حکومت نے ریاض، جدہ اور دمام سمیت دیگر بڑے شہروں میں سینیما گھروں اور تھیٹروں کی تعمیر کے لیے 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا۔
اسی سال ایک عالمی مشاورتی فرم پی ڈبلیو سی مڈل ایسٹ کی ایک تحقیق کے مطابق ملک کی سنییما انڈسٹری کو جو 3 کروڑ 20 لاکھ سے زائد آبادی کی خدمت کرے گی سنہ 2030 تک ڈیڑھ ارب ڈالر کی سالانہ آمدنی متوقع ہے۔
مقامی فلم سازوں کی ترقی
سعودی عرب کی بڑی توجہ اب مقامی فلموں اور مقامی فلم سازوں کو تیار کرنے پر مرکوز ہے۔ سنہ 2020 میں قائم ہونے والے سعودی فلم کمیشن نے سنہ 2021 سعودی سینما گھروں میں ایک نئی حکمت عملی کے تحت منصوبوں کو تیز کیا تاکہ مملکت کو عالمی معیار کے فلمی مرکز کے طور پر قائم کیا جا سکے اور ایک ایسی صنعت کی تعمیر کی جا سکے جس کی سالانہ آمدنی 50 کروڑ امریکی ڈالر ہو۔
اس کے بعد پہلا ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول سنہ 2021 میں جدہ میں شروع ہوا جس میں مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی فلموں کے شائقین، فلم سازوں اور فلمی سرمایہ کاروں کو بحیرہ احمر کے ساحل پر اترتے دیکھا گیا۔
فلم کمیشن کے سی ای او عبداللہ القحطانی کے مطابق کمیشن کی حکمت عملی کلیدی شعبوں پر مرکوز ہے جن میں عالمی معیار کے ٹیلنٹ کے حصول کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ ملکی ٹیلنٹ بہترین سے مقابلہ کر سکے۔
کمیشن میں اہداف میں ملکی فلموں کی پیداوار بڑھانا، مزید بین الاقوامی پروڈکشن ہاؤسز کو راغب کرنا اور علاقائی اور بین الاقوامی منڈیوں میں سعودی فلموں کو فروغ دینا اور تقسیم کرنا بھی شامل ہے۔
اسی حوالے سے ایک نیا سعودی فلم انسٹی ٹیوٹ بھی شروع کیا گیا جو فلم پروڈکشن، اسٹوری ٹیلنگ کی پیشہ ورانہ تربیت اور وسیع تر تخلیقی اور تکنیکی مہارتوں جیسے ساؤنڈ انجینئرنگ اور اینیمیشن کے لیے وقف ہے۔