فوزیہ پروین کا تعلق اپر چترال کی دوردراز وادی لاسپور سے ہے۔ لاسپور پہلے زمانے میں اپنی رعایتی اون سے بنی مصنوعات “شُو” سے پہچانا جاتا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شو سازی کی صنعت ختم ہوتی چلی گئی۔
فوزیہ پروین نے پشاور یونیورسٹی میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد اس ختم ہوتی صنعت کو دوبارہ زندہ کرنے کی ٹھانی۔ لاسپور میں اب بھی کچھ خواتین کو شو بنانے کا فن آتا تھا مگر مناسب مارکیٹنگ نہ ہونے سے وہ اس کام کو منافع بخش نہیں سمجھتی تھیں۔ فوزیہ پروین نے مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر ان کے اس فن کو سامنے لانے اور خواتین کے لیے منافع بخش کاروبار بنانے کے لیے “قشقاری ہینڈی کرافٹ” کے نام سے ادارے کی بنیاد رکھی۔
جلد ہی انہوں نے نئی خواتین کو بھی اس فن میں تربیت دی۔ ان خواتین کی ہاتھ سے بنائی گئی اونی مصنوعات قومی اور بین الاقوامی نمائشوں میں پیش ہوچکی ہیں۔
فوزیہ پروین نے اب خیبرپختونخوا ٹورزم اتھارٹی سے مل کر اسلام آباد میں بھی ایک مرکز کا افتتاح کیا ہے۔
“قشقاری ہینڈی کرافٹ” میں اب اعلیٰ معیار کے اونی ملبوسات سمیت قالین وغیرہ بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ فوزیہ پروین کی کوششوں سے نہ صرف مقامی خواتین دستکار بااختیار ہوچکی ہیں بلکہ چترالی ثقافت کے ایک بھولی بسری فن کا بھی احیا ہوگیا ہے