پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیکا قانون کوئی آئیڈیل قانون تو نہیں ہے لیکن یہ اس سے بہت بہتر ہے جو شروع میں تجویز کیا گیا تھا جسے مشاورت کے بعد قدرے بہتر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پیکا ترامیم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا
آکسفورڈ یونیورسٹی میں گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پیکا قانون کی ابتدائی شکل میں تو ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر 30 سال کی سزا بھی شامل تھی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی پیکا قانون میں شامل رہی ہے اور اس میں ترامیم کرائی ہیں، پیپلز پارٹی نے 26 ویں ترمیم منظور کروا کے جمہوریت کو کمزور نہیں کیا ہے۔
مزید پڑھیے: مریم نواز کی ایک برس کی کارکردگی پر اشتہار، ’جن اخبارات نے اشتہار چھاپا ان پر پیکا نہیں لگتا؟‘
پیکا قانون کی طرح 26 ویں آئینی ترمیم کا بھی دفاع کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں بہت مثبت کردار ادا کیا ہے تاہم 26 ویں ترمیم اصل شکل میں نہیں بلکہ کچھ مختلف شکل میں منظور ہوئی ہے۔ اس ردوبدل کی وجہ انہوں نے مذکورہ قانون سازی پر جمعیت علمائے اسلام سے مشاورت قرار دی۔
’ہمیں ہر ٹوئٹ، پوسٹ کنٹرول کرنے کی خواہش ترک کرنی ہوگی‘
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت بہت مستحکم نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ہر چیز، ہر رائے، ہر ٹوئٹ اور ہر ہیڈ لائن کو کنٹرول کرنے کی خواہش ترک کرنی ہوگی۔
مزید پڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت سے منظور، صدر زرداری آج دستخط کریں گے
بلاو بھٹو نے کہا کہ میڈیا کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور سوشل میڈیا کو تو کسی صورت کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔