نواز شریف اور مشرف بڑے شوق سے میرا وائلن سنتے تھے، استاد رئیس خان

بدھ 26 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے مایہ ناز وائلن نواز استاد رئیس احمد خان  کہتے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر جنرل مشرف  نہایت شوق سے ان سے وائلن سنتے تھے۔ میاں نواز شریف کہتے تھے کہ میں نے دنیا میں بہت سے وائلن سنے ہیں لیکن آپ کے وائلن کی جو ساؤنڈ ہے، ادائیگی ہے، ویسی کسی دوسرے وائلنسٹ سے نہیں سنی۔

وی نیوز سے خصوصی انٹرویو میں استاد رئیس خان کا کہنا تھا کہ انہیں 2007 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ملا، 2016 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اب 23 مارچ 2023 کو ہلال امتیاز سے نوازا گیا جو ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز ہے۔ یہ اللہ کی بڑی مہربانی ہے۔

ہلال امتیاز ملا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔

تاہم انہوں نے قدرے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صرف ایوارڈ دیا گیا، اس کے ساتھ کیش ایوارڈ وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میری خدمات، میرے خاندان کی خدمات ہیں۔ میرے والد، میرے بھائیوں کی خدمات ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ایوارڈ کے ساتھ کیش ایوارڈ بھی ہونا چاہیے تھا۔

’ ہم دوسرے ممالک میں اپنے فن اور رویے سے پاکستان کی بہت عزت کرواتے ہیں، لوگ تسلیم بھی کرتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ہلال امتیاز کے ساتھ کیش ایوارڈ بھی ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ہماری خدمات جاری و ساری ہیں۔ مجھے فن کی خدمت کرنی ہے اور اس ملک کی بھی خدمت کرنی ہے۔‘

وائلن مشکل ساز

’’وائلن کے بارے میں پوری دنیا میں کہا جاتا ہے کہ مشکل ہے، اس کی بہت سی پیچیدگیاں ہیں، اس کی پوزیشن، سٹک ورک، بائیں طرف کا حصہ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وائلن مشکل سازوں میں سے ایک ہے۔

ستار کے بجائے وائلن کیوں؟

’ میرے والد استاد فتح علی خان ستار بجاتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ ہم ان کا ورثہ لے کر چلیں۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ مجھے وائلن سیکھنا ہے۔ وہ ایک دم سے حیران ہوئے۔ انہوں نے دوبارہ مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے وائلن سیکھنا ہے؟ میں نے کہا: جی۔ انہوں سے پوچھا: کیوں؟‘

’اس وقت میری عمر9 برس تھی۔ میں نے کہا کہ مجھے اس کی آواز بہت اچھی لگتی ہے۔ وائلن کی شکل اوراس کی پوزیشن دل کو اس قدر بھاتی ہے کہ میں نے طے کرلیا کہ مجھے یہی ساز بجانا ہے۔ والد صاحب نے یہ سوال 3،2 مرتبہ پوچھا، میں نے یہی جواب دیا کہ وائلن ہی سیکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے‘۔

ہمارے گھر میں سارے ساز ہوتے تھے۔ رات کا وقت تھا۔ والد صاحب نے کہا کہ ابھی اور اسی وقت اندر سے وائلن لے کر آؤ۔ وائلن کی 4 تاریں ہوتی ہیں لیکن اس کی 2 تاریں تھیں۔ 2 تاریں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اسی وقت بسم اللہ کرائی اور میرا وائلن کا سفر شروع کروا دیا‘‘۔

والد ستار سے باتیں کرتے تھے

اپنے والد استاد فتح علی خان ( ستار نواز ) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا’میرے والد صاحب بھی پٹیالہ میں رہتے تھے۔ وہاں سے پاکستان آئے تھے۔ ہر فرد اپنے والد کی تعریف کرتا ہے کیونکہ وہ اس کا والد ہوتا ہے۔ میں نے ان کے اندر کمال فقیری دیکھی۔ انہیں ستار سے باتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ کیا باتیں کرتے تھے؟ وہ جانتے تھے یا ستار جانتا تھا۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی تھی۔ کچھ باتیں بعد میں آہستہ آہستہ سمجھ آئیں۔‘

’بہت شریف انسان تھے۔ سیلف میڈ تھے، خود آدمی تھے۔ میں نے پوری زندگی انہیں محنت کرتے دیکھا۔ ہمارے لیے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم 9 بہن بھائی تھے اور وہ کمانے والے اکیلے آدمی تھے۔ وہ جس ایمان داری سے کام کرتے تھے، وہ بات میرے اندر آج تک سمائی ہوئی ہے‘۔

استاد فتح علی خان ’ٹیوننگ کی‘ دانت کے ساتھ رکھ کر کیوں بجاتے تھے؟

’ان کا ستار بجانے کا مختلف انداز تھا۔ وہ اس کی ’ٹیوننگ کی‘ دانت کے ساتھ رکھ کر بجاتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سن نہیں سکتے تھے۔ بہت اونچی آواز سے ان کے کان میں بولا جاتا تو انہیں سنائی دیتا تھا۔ انہوں نے طریقہ یہ نکالا کہ جس وقت وہ اپنے دانتوں میں ستار کی ’کی‘ دبا لیتے تھے، اس سے ساؤنڈ ان کے کان میں آتا تھا۔ اسے وہ محسوس کرتے تھے۔ ستارکی ساری چھوٹی چھوٹی باریکیوں کو محسوس کرتے تھے‘۔

روزانہ 7،6 گھنٹے ریاضت

’سختی بھی بہت ہوئی۔ ریاضت کے معاملے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ والد نہیں ہیں۔ دوسری طرف نرمی کا یہ عالم تھا کہ ہم رات کو سوئے ہوتے تھے، وہ 2 ڈھائی بجے ہمیں جگاتے تھے۔ انہوں نے پہلے سے دودھ جلیبی تیار رکھی ہوتی تھی۔ وہ ہمیں جگاتے، ہم کہتے کہ سخت نیند آئی ہوئی ہے، وہ کہتےکہ صرف ایک منٹ کے لیے اٹھو، اور یہ پی لو۔ وہ ہمیں دودھ جلیبی پلاتے، اس کے بعد پھر سلا دیتے تھے‘۔

’ان کی شفقت اور محبت اس قدر زیادہ تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ہم سب بہن بھائیوں کو کبھی اِدھر سے پیار دیتے، کبھی اُدھر سے پیار دیتے۔ جو کچھ میسر ہوتا، ہمیں فراہم کرتے تھے۔ لیکن جب ریاضت کی بات آتی تھی، وہ سب کچھ بھول جاتے تھے۔ کوئی رعایت نہیں ملتی تھی‘۔

’وہ ہمیں ہر روز 7،6 گھنٹے ریاض کراتے تھے۔ ہمیں صبح سویرے اٹھاتے تھے چاہے بہت زیادہ سردی ہو۔ وہ رضائی میں بیٹھے ہوتے تھے، انگیٹھی جل رہی ہوتی تھی، کوئلے دہک رہے ہوتے تھے۔ اور وہ مجھے کہتے کہ چلو! ریاضت شروع کرو۔ میں 2، ڈھائی گھنٹے وائلن بجاتا۔ اس کے بعد ہم ناشتہ کرتے۔ پھر وہ دوپہر کو ہمیں لے کر بیٹھ جاتے تھے۔ اسی طرح ایک سیشن شام کو ہوتا تھا‘۔

کڑے پہن کر ریاضت کیوں؟

’آپ نے کھلاڑیوں کو بھی دیکھا ہوگا،  وہ ریت پر بھاگتے ہیں کہ وہاں بھاگنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم کڑے پہن کر ریاضت کرتے تھے، بڑے بھارے کڑے تھے۔ کلائیوں میں اس قدر وزن کے ساتھ ساز بجانا مشکل ہوجاتا ہے۔ میں نے اس قدر زیادہ نہیں کیا لیکن ستار بجانے کے لیے یہ بڑا ضروری تھا۔ میرا بھائی نفیس خان کڑے پہن کے ریاضت کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں جب ستار بجایا جاتا ہے تو وہ بڑا آسان ہوجاتا تھا‘۔

9 برس کی عمر میں پہلی پرفارمنس

’والد صاحب نے بڑی تیزی سے وائلن سکھایا۔ میں نے پہلی دھن بجائی ’سمی میری وار‘، اور پہلا راگ بھوپالی سکھایا، 5 سروں کا راگ ہے۔ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا زمانہ تھا۔ پی ٹی وی پر ایک پروگرام لگتا تھا:’تالیاں‘۔ پروڈیوسر کو کسی طرح سے پتہ چلا کہ استاد فتح علی خان کے بچے بھی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے میرے والد صاحب سے بات کی۔ 9 سال کی عمر ہی میں ’سمی میری وار‘ بجاکر اپنی پہلی پرفارمنس دی‘۔

’جب میں نے وائلن شروع کیا تو عین 2 ڈھائی مہینے بعد پہلی بار پرفارم کیا۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی پر کسی کا 3 سیکنڈ کا سارٹ چل جاتا تھا  تو وہ ہیرو بن جاتا تھا‘۔

35 سے 40 ملکوں میں فن کا مظاہرہ

’جب آپ 35 سے 40 ملکوں میں چلے جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ پوری دنیا میں ہی چلے گئے۔ دنیا کے ہرخطے میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جیسے لبنان، وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے موقع دیا۔ اسی طرح سری لنکا میں پرفارم کیا۔ جہاں بھی گیا، بڑی عزت ملی‘۔

’گزشتہ 40 برس سے پاکستان میں جتنے بھی سربراہان مملکت آئے، ان کی تعداد قریباً 50 بنتی ہے، میں نے ان کے سامنے پرفارم کیا۔ ضیاالحق کے زمانے میں، اس وقت میں خاصا جونیئر تھا۔ غیرملکی مہمان کے لیے ایوان صدر میں ڈنر ہوتا ہے یا وزیراعظم ہاؤس میں۔ اس میں ایک طرف سٹیج ہوتا ہے جہاں موسیقی چل رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف ڈنر چلتا ہے۔ میں اس میں جاتا تھا۔ اس وقت سے آج تک یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ اس دوران نجانے کتنے ہی ممالک سے لوگ پاکستان آئے ہوں گے، ان سب کے سامنے وائلن بجایا۔ ویسے تو ہم نے اپنا فوک میوزک سنانا ہوتا تھا۔ تاہم جس ملک کا سربراہ آرہا ہے، اس ملک کا میوزک یاد کرتا تھا، اور پیش کرتا تھا۔ اس کا مجھے شوق ہوتا تھا‘۔

نواز شریف اور جنرل مشرف میرے فیورٹ

’سیاسی طور پر جو معاملات  بھی ہوں ، وہ ایک الگ بات ہے۔ پاکستان کے سربراہان مملکت میں سے جنہوں نے سب سے زیادہ مجھے داد دی ہے، بہت عزت دی ، جنہوں نے مجھے بڑے شوق سے سنا ، ان میں ایک جنرل مشرف تھے اور دوسرے میاں محمد نواز شریف تھے۔ یہ دونوں میرے بھی فیورٹ ہیں۔ انہوں نے مجھے بہت سراہا۔ ویسے جتنے سربراہان آتے تھے، وہ تعریف کرتے تھے‘۔

’پاکستان میں اور بیرون ملک میری تعریف میں بہت سے لوگوں نے بہت کچھ کہا، انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسا وائلن نہیں سنا، وہ کہتے تھے کہ آپ کا وائلن بجتا نہیں، گاتا ہے۔  ہرگانے کا کوئی موضوع ضرور ہوتا تھا جیسے ہر غزل کا ایک موضوع ہوتا ہے۔ جب میں وائلن بجا رہا ہوتا ہوں تو میرے اندر شاعری چل رہی ہوتی ہے۔ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے دل کی دھڑکن آپ کے وائلن سے نکلنے والی دھن جیسی ہوگئی ہے‘۔

نوازشریف نے میرے لیے ایک یادگار بات کہی

’ایک دفعہ  وزیراعظم ہاؤس میں کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ اس وقت میاں نواز شریف نے کہا کہ میں نے دنیا میں بہت سے وائلن سنے ہیں لیکن  آپ کے وائلن کی جو ساؤنڈ ہے، ادائیگی ہے، ویسی کسی دوسرے وائلنسٹ سے نہیں سنی۔ یہ بات میرے لیے یادگار بات ہے ، یہ میرے لیے بہت بڑی، خوشی کی بات ہے۔ اپنی اپنی سننے اور فن کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے‘۔

والدہ کا کردار

استاد رئیس احمد خان نے کہا ’وائلن کا جو انگ ہے ، اس کا کریڈٹ میرے والدین کو جاتا ہے۔ میرے والد صاحب بہت جلد اس دنیا سے چلے گئے تھے،  اس کے بعد ہماری تربیت کا سارا بیڑہ ہماری والدہ نے اٹھایا۔ اور اسے جاری رکھا۔ یہ بہت بڑی بات تھی‘۔

’میرے بہت سے شاگرد اس ملک اور دنیا میں کام کر رہے ہیں۔ میرا بیٹا عثمان رئیس ماشااللہ بہت اچھا گلوکار ہے۔ وہ بہت اچھا گاتا ہے۔ لیکن وہ وائلن کی طرف نہیں آیا۔ اس نے کہا کہ میں گانا چاہتا ہوں۔ میں نے اسے ایک دم سے کہا کہ ٹھیک ہے کہ آپ گانا گائیں۔ وہ بھی موسیقی ہی ہے ، فن کی خدمت ہی ہے۔ میں نے زبردستی بھی نہیں کی۔ جب تک وہ ایک خاص حد تک اچھا نہیں بجائے گا، اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ جب آپ اپنے خاندانی ورثہ لے کر چلتے ہیں تو بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے‘۔

پاکستان کی موجودہ صورت،اللہ رحم کرے!

’ملک اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے، میں اسے دیکھتا ہوں۔ پاکستان میں رہتا ہوں تو پاکستان کے معاملات پر نظر بھی رکھتا ہوں۔ مجھے شوق بھی ہے۔ ٹاک شوز بھی دیکھتا ہوں۔ میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال بہت دکھ بھری اور افسوس ناک ہے۔ اللہ خیر کرے، اللہ رحم کرے۔ بس! اتنا ہی کہوں گا‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp