ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے اتحادی جماعتوں کے ظہرانے میں مشاورت کی جس کے بعد انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ وزیراعظم نے اتحادی ارکان اسمبلی سے مشاورت کی تو اتحادیوں نے انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے آپ کبھی بھی ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں۔
وزیراعظم آج ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ لینے کا مقصد ایسے لوگوں کو پیغام دینا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کمزور ہیں یا پارلیمنٹ وزیراعظم کے ساتھ نہیں ہے۔
قبل ازیں حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے اعتماد کے ووٹ کا فیصلہ آج عدالتی فیصلے کے بعد ہوگا۔ وزیراعظم شہبازشریف کے اعتماد کے ووٹ کے معاملے پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو جلد ضمنی ایجنڈا تیار کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام حکومتی اراکین کو ایوان میں حاضری یقینی بنانے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔
وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کے لیے سادہ اکثریت 172 اراکین کی ضرورت ہے۔ اعتماد کا ووٹ اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوگا۔ یاد رہے کہ انتخابات کیس میں گزشتہ سماعت پر 3 رکنی بینچ نے وزیراعظم کے پاس اکثریت نہ ہونے کی آبزرویشن دی تھی۔
وزیراعظم کے ظہرانے میں 176 سے زائد مسلم لیگ ن اور اتحادی رکن قومی اسمبلی کی شرکت
وزیراعظم کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں دیا گیا عید ملن ظہرانہ ختم ہو گیا۔ ظہرانہ میں 176 سے زائد مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی جماعتوں کے ایم این ایز نے شرکت کی۔اس دوران مشاورت سے فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم آج قومی اسمبلی اجلاس کے دوران ہی اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کے لیے سادہ اکثریت 172 ووٹوں کی ضرورت ہے۔
یہ 10 دفعہ بھی ووٹ لے لیں مگر انہوں نے جانا ہے: شیخ رشید احمد
حکومت اور وزیراعظم کے اس فیصلے پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ یہ لنگڑی لولی اور نااہل حکومت ہے۔ یہ 10 دفعہ ووٹ بھی لے لیں مگر انہوں نے جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لے کر یہ لوگ اپنی خواہش پوری کر لیں مگر بالآخر آئین اور قانون جیتے گا اور یہ جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان سے ملک نہیں چل رہا ہے اور نہ ہی آئین اور قانون سنبھل رہا ہے۔
حکومت لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایسا کر رہی ہے: شاہ محمود قریشی
شاہ محمود قریشی نے اس فیصلے پر کہا ہے کہ ہو سکتا ہے ان کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے حکومت ایسا لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کر رہی ہو اور اگر حکومت نے یہ شوق پورا کرنا ہے تو کرلے۔
مذاکرات سے متعلق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحادی جے یو آئی نے مذاکرات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے اور دیکھتے ہیں کہ معاملات کس طرف جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے مذاکرات کا وقت پی ڈی ایم نے مانگا تھا اور 4 بجے کا وقت طے ہوا تھا مگر ہم پہنچ گئے تھے لیکن حکومتی وفد نہیں آیا تھا۔ اب مذاکرات کا آغاز 5 یا 6 بجے ہو جائے گا اور دیکھتے ہیں کہ حکومت کیا تجویز لے کر آتی ہے۔