سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف کیس غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹادیا

بدھ 30 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف کیس غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دیا، مذکورہ انکوائری کمیشن کے چیئرمین قاضی فائز عیسی ریٹائر جبکہ باقی ممبر سپریم کورٹ تعینات ہو گئے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف کیس کی سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے بتانا ہے کہ کیا آڈیو لیکس پر نیا کمیش بنائیں گے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سی ڈی اے کو وائلڈ لائف بورڈ کے دفاتر واپس کرنے کا حکم

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل دوسرے آئینی بینچ میں مصروف ہیں، جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ صرف اتنا بتا دیں کہ وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس پر کیا کرنا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے ہدایات حاصل کرنے کی مہلت طلب کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیا مذاق بنایا ہوا ہے آپ نے کبھی آپ آ جاتے ہیں کبھی اٹارنی جنرل، صرف ہاں یا نہ بتانا ہے اور اٹارنی جنرل پیش نہیں ہوئے تو نہیں بتائیں گے۔

مزید پڑھیں: کچی آبادی اگر کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہاکہ روزانہ ہم یہاں بیٹھ کر بس ایک معاملے کو لٹکاتے رہیں کہ اٹارنی جنرل نہیں ہے، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس تو غیر مؤثر ہو چکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیدھی سی بات ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے سربراہ قاضی فائز عیسی ریٹائر ہو گئے، کمیشن کے ممبر جسٹس نعیم اختر اور جسٹس عامر فاروق سپریم کورٹ کے جج بن گئے، وفاقی حکومت کو نیا کمیشن بھی بنانا ہے تب بھی یہ کیس اب غیر موثر ہے۔

ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس

ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کراتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ وفاق نے ججوں کے تبادلے پر غلط بیانی سے کام لیا۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے روبرو ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس کے درخواست گزار ججوں کی جانب سے تحریری جواب وکیل منیر اے ملک اور رفاقت حسین کے توسط سے جمع کرایاگیاہے۔

جواب میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ وفاق نے ججز ٹرانسفر پر غلط بیانی سے کام لیا، مشاورت میں غلط بیانی کی گئی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تمام صوبوں کی نمائندگی نہیں، چیف جسٹس کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ نئے جج حلف کے بغیر عہدہ سنبھالیں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے اپنا ذاتی مسئلہ نہیں اٹھا رہے، جسٹس عامر فاروق کا نام سپریم کورٹ کیلئے تجویز ہونے کے فورا بعد تبادلے معنی خیز ہیں، سوال یہ ہے کہ ایک ہائیکورٹ کو وفاقی حکومت بدنیتی سے کیسے متاثرکرسکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp