جیسے ہی یہ سوال ذہن میں آیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کامیاب ہوں گے یا نہیں سوشل میڈیا لاہور میں پرویز الٰہی کے گھر پولیس اور اینٹی کرپشن کی ٹیم کے اندر جانے کے مناظر سے بھر گیا۔
مذاکرات اور گرفتاریاں ساتھ ساتھ صرف تب مناسب ہوتی ہیں اگر قانون کے مطابق ہوں۔ پرویز الٰہی کے گھر میں عورتوں اور نوکروں کا کیا قصور تھا؟ انہوں نے تو کسی کیس میں ضمانت نہیں لے رکھی تھی۔ اور اس دفعہ یہ عمران خان کا گھر نہیں تھا ۔ بلکہ خان کے ما ضی کے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو اور حال کے سب سے وفادار اتحادی کا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے عمران خان کے دور کے مناظر ہوں۔ حکومت پولیٹیکل وکٹمائزیشن کر رہی ہے ۔ عدالت کئی بار ایسی کاروائیوں کو غلط قرار دے چکی ہے۔ کسی سیاسی رہنما کو جو وزیراعلی بھی رہ چکا ہو، اس کے گھر میں گھس کے کاروائی کیسے کی جا سکتی ہے؟
اس سے حکومت اپنا سیاسی قد چھوٹا کر رہی ہے۔ علی امین گنڈا پور، فواد چوہدری، شیخ رشید اور دیگر کے سیاسی بیانات پاکستان کے کسی ادارے کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے لیکن حکومت عمران خان کے دباوٓ میں تھی اور ہے۔ آدھی رات کو سیاسی مخالفین کے گھر بکتر بند گاڑیاں بھیجنا اور پھر مذاکرات کی بات کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مذاکرات ناکام کروانا حکومت کے نئی حکمت عملی ہے۔
اسحق ڈار، سعد رفیق اور اعظم تارڑ کی کوشیش ان کی اپنی ہی حکومت کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ عمران خان اپنے سب سے وفا دار سمجھے جانے والے ساتھی کے ساتھ ہونے والے سلوک کا جواب مانگے گے اور حسب معمول حکومت کسی نئی گرفتاری کی کوشش کرے گی۔ کیونکہ حکومت سب سے بڑا چیلنج معیشت کو نہیں مانتی، چیلنج ہے تو عمران خان۔ حکومت کی سیاسی غلطیوں نے عمران خان کو اور مظبوط کیا ہے۔ جو سلوک عمران خان کی حکومت میں سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا گیا نیب ایک ویڈیو کی بنیاد پر چلایا جا رہا تھا ، ن لیگ خود اس کا شکار رہی خاقان عباسی سے فریال تالپور تک سب کو جیل کی ہوا نصیب ہوئی لیکن افسوس کے سیکھا کچھ نہیں۔
عدالت نے محکمہ اینٹھ کرپشن کو 11 مئ تک پرویز الٰہی کو گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔ لیکن اس بھونڈے انداز میں گرفتاری بنتی ہے کیا؟ اہل عقل کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ پرویز الٰہی کے بیٹے راسخ الٰہی نے آپریشن کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے لیکن اس درخواست سے کیا سیاسی گرفتاریاں رک جائیں گی؟ کیا تاریخ بدل جائے گی؟
6 جنوری 1949ء کو وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں ایک قانون کا بل پیش کیا تھا جو تاریخ میں ‘PRODA – پروڈا’ (Public Representative And Officers Disqualification Act) کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو منظوری کے بعد 14 اگست 1947ء سے نافذالعمل ہوا تھا۔ اس قانون کے تحت گورنر جنرل کو ایک آمر بنا دیا گیا تھا جو کابینہ کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی صوابدید پر کسی بھی سرکاری اہلکار کے خلاف یہ متنازعہ قانون استعمال کر سکتا تھا۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں دس سال کی نااہلی کی سزا بھی ہو سکتی تھی۔ اسی بدنام زمانہ قانون کے تحت پہلی دستور ساز اسمبلی کو برخاست بھی کیا گیا تھا۔ دوسری دستور ساز اسمبلی نے 20 دسمبر 1954ء کو یہ قانون منسوخ کر دیا گیا تھا۔
اگست 1959ء کو صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان نے مخالفین کے لئے ایک متنازعہ آرڈر یا قانون جاری کیا جسے تاریخ میں ” ایبڈو “یا Elected Bodies Disqualification Order (EBDO) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس قانون کا اطلاق 14 اگست 1947ء سے کیا گیا تھا۔ ‘ ایبڈو ‘ کا قانون اصل میں لیاقت علی خان کے ‘ پروڈا ‘ قانون کی نئی شکل تھا جس کے مطابق کسی بھی سرکاری عہدے یا ادارے پر فائز کسی بھی شخص کے خلاف بدعنوانی کے کیس ثابت ہونے پر اسے اگلے چھ سال تک کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اس دور کے 98 سیاستدانوں پر بدعنوانیوں کے مقدمات چلے تھے جن میں زیادہ تر پی پی پی کے اہم رہنما تھے۔ تین سابق صوبائی وزرائے اعلیٰ ، میاں ممتاز دولتانہ ، خان عبدالقیوم خان اور محمد ایوب کھوڑو سمیت 70 سیاستدانوں نے رضاکارانہ طور پر سیاست سے کناراکشی اختیار کرکے اپنی جان چھڑا لی تھی۔ 28 سیاستدانوں نے مقدمات کا سامنا کیا ، صرف چھ افراد بری ہوئے۔ سزا پاکر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگوانے والے 22 سیاستدانوں میں سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی بھی تھے۔ ایبڈو کے قانون کی معیاد 31 ستمبر 1966ء تک تھی
پاکستان کے دو حصے ہونے کے بعد۔ بھی سیاسی بدلے لینے کا سلسلہ نہیں رکا پاکستان کی تاریخ کے سب سے پاپیولر لیڈر ذولفقار علی بھٹو نے دو صوبائی اسمبلیاں توڑیں ان کے دور میں مخالفین پر تشدد کیا گیا، فوجداری مقدمات بنائے گئےاور جب پی این اے اور دیگر مخالفین کو موقع ملا تو بھٹو سے بدلا لینے کے لیئے مارشل لا کو نہیں روکا۔ بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔۔۔ اور اب جوڈیشل مرڈر کہہ کر اس کو کوورُتو کیا جاتا ہے لیکن اس خونی سیاست کی ذمےداری کس نے لی؟
جب عمران خان کو اقتدار ملا تو ن لیگ کو نشانہ بنایا گیا آدھی لیڈر شپ کو جیل میں ڈالا گیا ۔ ماضی میں بے نظیر اور نواز شریف بھی ایک دوسرے کو اقتدار سے ہٹانے کے لئیے سرگرم رہے۔ کبھی کوئی سکیورٹی رسک بن جاتا تھا تو کبھی کسی نے اسامہ بن لادن کو بھاری رقم بھجوائی لیکن آج تک جب جب اسٹبلشمنٹ کا موڈ بدلا تو بڑے سے بڑا الزام بھلا دیا گیا۔۔۔
2006 کے بعد پی پی پی تو اپنی غلطیوں سے سیکھ چکی ہے لیکن ن لیگ غصے اور بدلے کی سیاست کی روش سے باہر نہیں ا سکی۔
عمران خان ، سابق وزیراعظم پر درجنوں مقدمے ۔ ان کے ساتھیوں کی کسٹڈی میں جنسی تشدد کے الزامات، غداری کے مقدمے ،، یہ سب اقدامات ن لیگ کو نوے کی دہائی میں واپس لے گئی ہے۔
کیسے امید کی جا سکتی ہے کی مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ عمران خان پہلے ہی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے اور حکومت دباوٓ میں بکتر بند گاڑیاں ایک سیاسی جماعت کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ کے گھر میں گھستی ہے۔ تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی جماعت سے ایسے فیصلوں کی امید نہیں تھی یا پھر بدلہ ن لیگ نہیں کوئی اور لے رہا ہے۔
بدلے لینے والوں کے لیے یاد دہانی کے لئے بتا دوں کہ پاکستان کو اگلے سال مزید 34 بلین ڈالر کے قرضوں کی ضرورت ہے۔ امارات اور سعودی سے جو ملا وہ تو قرضوں کو واپس کرنے میں لگ جائے گا اور ڈالر کہاں سے لائیں گے ؟
سوچئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔