کیا وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ ایران دوطرفہ تجارت کو فروغ دے پائے گا؟

منگل 27 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سہ ملکی دورے کے سلسلے میں آذربائجان پہنچ گئے ہیں، ان کے ہمراہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی موجود ہیں۔ وزیراعظم اپنا 2 روزہ دورہ ایران مکمل کر چکے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے حالیہ دورہ ایران کے دوران ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے ایران کے پُرامن سول جوہری پروگرام کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں بارڈر پر دہشتگردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر پاکستان ایران کا اتفاق

دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں خصوصاً تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور انسداد دہشتگردی میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔

وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان ایران کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے موجود ہیں، جنہیں اقتصادی شراکت داری کے ذریعے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

ایرانی صدر نے بھی پاکستان کو برادر ہمسایہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ خطے کی ترقی و خوشحالی کا انحصار امن و استحکام پر ہے، اور اس مقصد کے لیے دونوں ممالک کا تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

تاجر برادری کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ ایران کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے، تاہم سابق صدر ایوان صنعت و تجارت بلوچستان فدا حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کو دورے کے موقع پر بلوچستان کے تاجروں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، اگر پاکستانی تاجر وفد کا حصہ بنتے تو تجارت کو فروغ دینے کی سنجیدہ کوششیں ممکن ہوتیں۔

فدا حسین نے بتایا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سالانہ اربوں روپے کی قانونی تجارت ہوتی ہے، ایران سے پاکستان کو خوردنی تیل، اسٹیل، ایل پی جی، پیٹرو کیمیکلز، میوہ جات، خشک میوہ، قالین، ٹائلز اور دیگر صنعتی و روزمرہ اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے ایران کو چاول، آم، سبزیاں، ٹیکسٹائل مصنوعات اور کھیلوں کا سامان برآمد کیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کم از کم 10 ارب ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ حجم محدود سطح پر برقرار ہے۔

فدا حسین کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی سرحدی مارکیٹیں پہلے سے تیار ہیں، لیکن ایران کی جانب سے بعض غیر ضروری پابندیاں اور نان ٹیرف رکاوٹیں تجارت کی راہ میں حائل ہیں۔ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے نہ صرف اعتماد سازی کی ضرورت ہے بلکہ مشترکہ تجارتی کمیشنز کو فعال اور بارڈر مینجمنٹ کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا بھی ناگزیر ہے۔

ایران اور پاکستان نے ماضی میں گیس پائپ لائن، بجلی کی ترسیل اور بارٹر سسٹم کے ذریعے تجارت جیسے اہم منصوبوں پر اتفاق کیا تھا، مگر بیشتر پر عملدرآمد التوا کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ایرانی چیف آف جنرل اسٹاف سے ملاقات، دفاعی تعلقات مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال

اگر ان منصوبوں کو دوبارہ فعال کیا جائے اور باہمی اعتماد کی فضا بحال ہو تو دونوں ممالک نہ صرف اپنے عوام کی معاشی حالت بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ خطے میں اقتصادی استحکام کی مثال قائم کر سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

کھیل رہے تھے تو ہاتھ بھی ملانا چاہیے تھا، کانگریس رہنما ششی تھرور کی بھارتی ٹیم پر تنقید

گھر کی تعمیر کے لیے 20 سے 35 لاکھ تک قرضہ کن شرائط پرحاصل کیا جا سکتا ہے؟

ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی ناقابل قبول کیوں؟

ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی مبینہ نامزدگی، والد کے دہشتگردوں سے تعلق نے نئی بحث چھیڑ دی

شہباز شریف کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات، بھارتی شہری اپنے وزیراعظم مودی پر پھٹ پڑے

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر سے اہم ملاقات، ڈونلڈ ٹرمپ کو دورہ پاکستان کی دعوت، اہم منصوبوں پر تبادلہ خیال

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی