فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی صدر ٹرمپ سے ملاقات سے پاکستان کا قد کاٹھ بڑھ گیا، مسعود خان

ہفتہ 21 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کی وجہ سے پاکستان کا قد کاٹھ بہت بڑھ گیا ہے اور اب ہمارے لیے موقع ہے کہ پاک امریکا تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیلڈ مارشل کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اندرونی کہانی کیا ہے؟

وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں مسعود خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان ہونے والی ملاقات غیر معمولی تھی۔ انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر امریکی صدور دوسرے ممالک کے فوجی سربراہان سے ملاقاتیں نہیں کرتے لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات جو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کی اہمیت ایسے وقت میں اور بڑھ گئی جب حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوئی ہے اور مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ چکی ہے۔

مسعود خان نے کہا کہ سنہ 2018 سے ہم یہ کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان فوجی رابطے بحال ہوں اور فوجی قیادت کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے ہوں اور دونوں ملکوں کے درمیان معاشی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس چیز کے  لیے اسٹیج پہلے ہی سیٹ ہو چکا تھا جب صدر ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھاتے ہوئے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پاکستان کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا۔

’اس ملاقات کے آپٹکس بہت اہم ہیں‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ اس ملاقات کے نظری تاثرات (آپٹکس) بہت اہمیت کے حامل ہیں اور صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد اعادہ کیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیے: صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی غیرمعمولی ملاقات پر بھارت میں بے چینی، پروپیگنڈا فیکٹریاں سرگرم

انہوں نے کہا کہ ایران اسرائیل جنگ کے وقت پاکستان کا وائٹ ہاؤس میں موجود ہونا بھی اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ پاکستان اس خطّے کا اہم ملک ہے اور ہمارا ایک یہ بھی پیغام ہے کہ ایران اسرائیل جنگ بند کروائی جائے۔

ایران اسرائیل جنگ بندی میں پاکستان کردار ادا کر سکتا ہے؟

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ماضی میں بھی ایران عراق جنگ میں پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے دونوں ملکوں میں جنگ بندی کرانے کی کوشش کی اور یہ ہم دوبارہ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں گے کیونکہ ایران ہمارا برادر، ہمسایہ ملک ہے۔ لیکن یہ جنگ بہت ہی الجھی ہوئی جنگ ہے کیونکہ اس میں اسرائیل کے ساتھ امریکا کھڑا ہے۔

’اسرائیل غزہ سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے‘

مسعود خان نے کہا کہ ایران جنگ کے ساتھ اسرائیل غزہ سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے جو کہ بہت حد تک ہٹ بھی چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے گزشتہ روز راشن کے لیے اکٹھے ہونے والے درجنوں فلسطینیوں کو مار دیا اور یہ خبر زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکی۔

’یورپی یونین مذاکرات میں اسرائیل مطمئن نہیں ہو گا‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ اس وقت جنیوا میں یورپی یونین اور ایران کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں اگر امریکا مطمئن ہو بھی گیا تو اسرائیل نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ظہرانہ، مینیو میں کیا تھا؟

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل صرف اس صورت مطمئن ہوگا جب ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر ختم کر دی جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر امریکا مطمئن نہ ہوا تو یہ جنگ بہت خوفناک صورت اختیار کر جائے گی لیکن امریکا کی کوشش ہے کہ ایک طرف اسرائیلی حملے جاری رہیں جس سے ایران دباؤ میں آئے گا۔

’اسرائیل کا امریکا نظام پر تسلط بہت گہرا ہے‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ وہ 14 برس امریکا میں رہے ہیں اور اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کا امریکی نظام پر گہرا تسلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس، امریکی انتظامیہ، امریکی میڈیا اور امریکی مالیاتی ادارے سب اسرائیل کی گرفت میں ہیں اور اس لیے مجھے اسرائیل کے لیے امریکا کے روّیے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب بھی جن کے پاس اقتدار ہے وہ سب اسرائیل کے حامی ہیں اور سابق صدر جو بائیڈن نے بھی ایک بار کہہ دیا تھا کہ ہمیں اسرائیل کا ممنون ہونا چاہیے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ہمارا کام کر رہا ہے اور اگر اسرائیل نہ ہوتا تو ہمیں ایجاد کرنا پڑتا لہٰذا اسرائیل کی حمایت امریکا کی پالیسی کا بہت بڑا حصّہ ہے۔

’امریکا میں اسرائیل مخالف آوازیں توانا ہو رہی ہیں‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ امریکا میں اسرائیل مخالف آوازیں توانا ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ برنی سینڈرز کو نظر انداز کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی جھکاؤ بائیں بازو کی جانب ہے لیکن ٹکر کارلسن اور اسٹیو بینن کی آوازوں کو خاموش نہیں کر سکتے کیونکہ یہ صدر ٹرمپ کے بہت قریب اور ان کے حلقہ انتخاب کا حصّہ ہیں اور ان کے علاوہ بیسیوں دیگر بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ امریکا کو ایک انتہائی مہنگی جنگ میں پھر سے شامل نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے: فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ٹرمپ ملاقات، بھارت حیران و پریشان، کیا پاکستان ایران کا ساتھ دے گا؟

مسعود خان نے کہا کہ اسرائیل کے کہنے پر وہ عراق چلے گئے تھے جس پر 3 ٹریلین ڈالر اور ہزاروں امریکی جانیں گئیں اور اس کے ساتھ اسرائیل نے جو غزہ میں ہولناک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور اس سے بھی امریکا میں دباؤ بڑھا ہے۔

’امریکا کے لیے بہتر نہیں کہ اسرائیل ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے لے جائے‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ایران اسرائیل جنگ جلد ختم ہو جائے گی یا نہیں اس بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے لیکن اس کے بارے میں کوششیں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں کوشش کی جا رہی ہے، یورپی یونین اس وقت جنیوا میں مذاکرات کر رہی ہے جس میں جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے وزرائے خارجہ، یورپی یونین کے اعلیٰ سطحی نمائندگان اور ایران کے وزیر خارجہ آغا عباس عراقچی موجود ہیں جن کی پہلی ترجیح کسی ایسے حل پر پہنچنا ہے جو بیک وقت ایران اور امریکا دونوں کو مطمئن کر سکے۔

مسعود خان نے کہا کہ دوسرا صدر ٹرمپ کے اوپر ان کے اپنے حلقوں سے دباؤ ہے کہ اس راستے پر نہ چلیں کیوں کہ اس میں امریکا کے لیے تباہی ہے اور امریکا کے لیے یہ اچھا نہیں کہ اسرائیل اس کی ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے لے جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر امریکا کے کچھ ہدف نشانہ بن گئے اور امریکا جنگ میں شامل ہو گیا تو یہ جنگ بہت پھیل جائے گی اور سارے خلیجی ممالک کو لپیٹ میں لیتے ہوئے یہ جنگ عظیم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

’امریکا بھارت تعلقات میں دراڑ کے پیچھے بھارت کی دھوکے بازی ہے‘

صدر ٹرمپ کے پاکستان کے حق میں بیانات سے ہندوستان میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے اور بھارتی میڈیا اور سیاستدان امریکا کے بارے میں بہت برہم نظر آتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کو سمجھ میں آگیا تھا کہ بھارت کس طرح عیاری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تزویراتی شراکت دار وہ امریکا کا ہے لیکن یوکرین جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس سے سستا تیل خرید کر عالمی منڈیوں میں بیچ رہا ہے، دوسرے برکس تنظیم میں ایک ترقیاتی بینک کے قیام کے پیچھے بھی بھارت ہے اور وہ ڈالر کی اجارہ داری کو توڑنے کے لیے ایک نیا مالیاتی نظام لے کر آنا چاہتا ہے اور تیسرے نمبر پر امریکا کو سمجھ میں آگیا ہے کہ بھارت چین کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکتا۔

مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی ملاقات پاک امریکا تعلقات میں ’سنگ میل‘ ہے، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف

مسعود خان نے کہا کہ امریکا کو وہ کہتا تو ہے کہ وہ چین کے خلاف کھڑا ہو گا لیکن چین کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں جبکہ پاک بھارت جنگ بندی میں ہم نے امریکا کا شکریہ ادا کیا لیکن بھارت صدر ٹرمپ کے بیانات پر مسلسل تنقید کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کو اس وقت سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے پہنچ رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل صدر ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکا اور ہندوستان کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے اور ہندوستان کو توقع تھی کہ اس بار ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بار پھر صدر بن جانے سے بھارت اور امریکا کے تعلقات زیادہ مضبوط ہوں گے کیونکہ امریکا میں کلیدی عہدوں پر یا تو بھارت نژاد امریکی ہیں یا بھارت نواز امریکی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp