جب کسی سیاستدان کی شکست خاموشی میں بدل جائے اور اچانک خاموشی نوٹوں کی بارش میں تبدیل ہو جائے، تو سوال جنم لیتے ہیں۔ کیا یہ محض فلاحی سرگرمی ہے؟ یا سیاسی حکمت عملی کا نیا باب؟ یہ سوال آج چترال میں ہر حلقے میں گونج رہا ہے، جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر طلحہ محمود ایک بار پھر سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔
وہی طلحہ محمود جنہوں نے 2024 کے عام انتخابات میں این اے ون چترال سے شکست کھائی، اب دوبارہ انہی وادیوں میں نمودار ہوئے ہیں۔ لیکن اس بار ایک بریف کیس اور بظاہر فلاحی جذبات کے ساتھ۔
فلاحی خدمت یا سیاسی حکمت؟
چترال کے بازاروں، گاؤں اور اسکولوں میں طلحہ محمود کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ کبھی وہ جوتے پالش کرنے والے کو 50 ہزار روپے دیتے نظر آتے ہیں، کبھی ہوٹل کے تمام بل ادا کرتے اور سب کے لیے کڑاہی منگواتے ہیں۔ کبھی ایک جوس کے گلاس کی قیمت 25 ہزار ادا کرتے ہیں، اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلی بار دکان بدلی ہوئی ہونی چاہیے۔
مزید پڑھیں: سابق سینیٹر طلحہ محمود نے جے یو آئی کو خیرباد کہہ دیا، پیپلز پارٹی میں شامل
ظاہری طور پر یہ اقدامات خالص انسانی ہمدردی اور سخاوت کے مظاہر ہیں، لیکن یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پی ٹی آئی کے ایم این اے عبدالطیف کو 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ کیس میں سزا ہو چکی ہے، اور ضمنی انتخابات کے بادل افق پر منڈلا رہے ہیں۔
خاموش سیاست کی گونج
چترال کے مقامی سیاسی مبصرین کے مطابق طلحہ محمود کی حالیہ سرگرمیوں میں خاص حکمت ہے۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے اس بار خاص طور پر اسماعیلی برادری کو ہدف بنایا ہے۔ وہی برادری جو 2024 کے الیکشن میں، ان کے بقول، ان کی شکست کی اہم وجہ بنی۔
آغا خان فاؤنڈیشن کے اداروں کو دی جانے والی خطیر رقوم، اسکولوں کے لیے زمین کی خریداری، سلائی سینٹرز اور لیب کے اعلانات اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لگتا ہے طلحہ محمود اس بار ووٹر کا دل جیتنے کے بجائے براہ راست ہاتھ تھامنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
پارٹی کا سایہ یا انفرادی پرواز؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ طلحہ محمود، جو سابق الیکشن میں جے یو آئی کے ٹکٹ پر امیدوار تھے، اب پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں مگر ان کی موجودہ سرگرمیاں نہ تو کسی جماعتی فیصلے سے جڑی دکھائی دیتی ہیں، نہ کسی تنظیمی حمایت سے۔ پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت طلحہ محمود کی سرگرمیوں میں شریک نہیں، اور پارٹی کی مرکزی قیادت بھی خاموش ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے طلحہ محمود ایک آزاد پرندے کی مانند اڑان بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ضمنی الیکشن کی آہٹ؟
چترال میں اگرچہ ضمنی انتخاب کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا، مگر سیاسی فضا میں تبدیلی کی چاپ صاف سنی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ عبدالطیف کی سزا سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے، اور انہوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن اگر ضمنی الیکشن ہوتا ہے تو پی ٹی آئی کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی جیسے تجزیہ کار واضح طور پر کہتے ہیں کہ طلحہ محمود کا سیاسی وزن کمزور ہے، اور وہ صرف ان لوگوں کے لیے سودمند ہیں جو ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
عوامی تاثر اور ووٹ کا وزن
چترال جیسے سیاسی طور پر محتاط اور باشعور حلقے میں نقد رقم کی تقسیم ووٹر کے فیصلے پر کتنا اثر ڈالے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آنے والے دنوں میں ہی مل سکے گا۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ طلحہ محمود کی موجودگی نے چترال کی سیاست میں ہلچل ضرور پیدا کر دی ہے۔
شاید یہ خاموش مہم ہو، شاید صرف فلاحی سرگرمیاں لیکن ایک چیز بالکل واضح ہے کہ چترال میں سیاست کی زمین پھر ہل رہی ہے اور بیج شاید دوبارہ بوئے جا چکے ہیں۔