پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم، خیبرپختونخوا حکومت بھی خطرے میں؟

منگل 1 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے، وہیں خیبر پختونخوا میں قائم علی امین گنڈاپور کی حکومت بھی سیاسی دباؤ اور اندرونی اختلافات کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔

عدالت کے حکم پر 21 مخصوص نشستیں اپوزیشن جماعتوں کو ملنے سے نہ صرف اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت متاثر ہوئی ہے بلکہ وزیراعلیٰ کی پوزیشن بھی متزلزل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور کو پارٹی کے اندر عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہنوں سے اختلافات کا سامنا ہے، جبکہ حکومتی امور پر ان کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ ان پر نہ صرف اندرونِ پارٹی تنقید ہو رہی ہے بلکہ پارٹی کے کچھ حلقوں میں بغاوت کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 145 رکنی خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کی تعداد بڑھ کر 54 ہوجائے گی۔ خواتین کی مخصوص 26 نشستوں میں سے 21 اور اقلیتوں کی 4 نشستیں مختلف جماعتوں کو دی گئی ہیں جن میں جے یو آئی (ف) کو 10، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو 7، اے این پی کو 1 اور پی ٹی آئی کو صرف 1 نشست ملی ہے۔ اس تقسیم سے اپوزیشن کو تقویت ملی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی بالادستی کمزور ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں : مخصوص نشستیں: سپریم کورٹ سے 12 ججز کے دستخطوں کے ساتھ آرڈر آف دا کورٹ جاری کرنے کی استدعا

سینئر صحافی و تجزیہ کار علی اکبر کے مطابق مخصوص نشستوں کا یہ فیصلہ وفاقی حکومت کے لیے حوصلہ افزا ہے اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے اقتدار کو واضح دھچکا ہے۔ ان کے بقول، اگرچہ بظاہر علی امین کو دوتہائی اکثریت حاصل ہے، لیکن اندرونی گروپ بندی اور قائدین سے اختلافات کے باعث وہ مشکل میں ہیں۔

علی اکبر نے انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت، خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کے تعاون سے، خیبر پختونخوا میں عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا اگر تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی تو اسی دن علی امین کی حکومت ختم ہو سکتی ہے۔

صحافی عمیر یاسر کے مطابق علی امین اس وقت پارٹی میں سب سے طاقتور شخصیت ہیں، اور اپنی سخت گیر حکمتِ عملی سے اراکین کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن پارٹی کے اندر اُن کے مخالف گروہ بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر علی امین کو ہٹایا گیا تو وہ اپنے گروپ کے ساتھ پارٹی کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں، جس سے سب سے زیادہ نقصان خود پی ٹی آئی کو ہوگا۔

مزید پڑھیں : پی ٹی آئی کا نیا امتحان، مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد اگلا قدم کیا ہوگا؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ آیا مخصوص نشستوں پر نامزد اراکین آسانی سے حلف لے سکیں گے یا نہیں۔ پی ٹی آئی پہلے ہی فیصلے کو مسترد کر چکی ہے اور صوبائی اسمبلی کا یکم جولائی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرکے، بظاہر نئے اراکین کی حلف برداری میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عمیر یاسر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ہر ممکن طریقے سے حلف برداری کو روکنے کی کوشش کرے گی، اور معاملہ ایک بار پھر عدالت جا سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی جانتی ہے کہ آخرکار اراکین حلف اٹھا لیں گے، مگر تاخیری حربے استعمال کیے جائیں گے تاکہ سیاسی وقت خریدا جا سکے۔

سیاسی منظرنامہ واضح ہے، خیبر پختونخوا میں حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، اپوزیشن متحرک ہے، اور پی ٹی آئی اندرونی خلفشار کا شکار۔ اگر سیاسی چالیں اسی رفتار سے چلتی رہیں، تو جلد ہی صوبے میں ایک نئی سیاسی صف بندی کا آغاز ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp