’جو لوگ مجھے منبر پر بٹھانا چاہتے ہیں ان سے میری یہی گذارش ہے کہ مجھے دھرتی پر بیٹھنے دیں کیونکہ مجھے اسی کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ وہ جو کھیل کے آداب مقرر کرتا ہے اس نے مجھے بالغانہ اور مدبرانہ کردار ادا کرنے کے فرض سے سبکدوش کر دیا ہے۔ میں اپنی زندگی کا رس اسی خاک کی دھرتی اور گھاس پر نچوڑنا چاہتا ہوں۔ وہ لوگ جو دھرتی کی گود کے قریب ہیں جو اسی دھرتی پر پہلا قدم اٹھاتے ہیں اور اسی کی گود میں چلے جاتے ہیں ۔ میں ان کا دوست ہوں ، میں شاعر ہوں، میں کوی ہوں۔ ‘ (رابندر ناتھ ٹیگور)
آج بنگالی زبان کے نوبل انعام یافتہ شاعر، فلسفی، افسانہ، ناول نگار رابندر ناتھ ٹیگور کا 162 واں یوم پیدائش ہے۔ ان کا اصل نام رویندر ناتھ ٹھاکر تھا، ٹیگور ٹھاکر کا بگاڑ ہے۔ آپ 7 مئی 1861ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کلکتہ میں ہی حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب صرف 17 برس کی عمر میں منصہ شہود پر آئی۔ پھر قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر 1878ء میں انگلستان چلے گئے، ڈیڑھ سال بعد ڈگری لیے بغیر لوٹ آئے اور اپنے طور پر پڑھنے لکھنے اور اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے میں مصروف ہو گئے۔
اس دوران کئی افسانے لکھے اور شاعری کی جانب بھی توجہ دی۔ ٹیگور کی اکثر تخلیقات بنگالی زبان میں ہیں۔ 1901ء میں بولپور بنگال کے مقام پر شانتی نکتین کے نام سے مشرقی اور مغربی فلسفے پر ایک نئے ڈھنگ کے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس نے 1921ء میں یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لی۔
شانتی نکیتن میں اپنی بنگالی تحریروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جس کے باعث ان کی مقبولیت دوسرے ممالک میں پھیل گئی۔ یورپ، جاپان، چین ،روس ،امریکا کا کئی بار سفر کیا۔ 1913ء میں ادب کے لیے نوبل پرائز ملا اور 1915ء میں برطانوی حکومت ہند کی طرف سے ’سر‘ کا خطاب دیا گیا۔
برطانوی راج میں پنجاب میں عوام پر تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پر انہوں نے ’سر‘ کا خطاب واپس کر دیا تھا۔ ٹیگور نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں کم و بیش پوری دنیا کا دورہ کیا اور لیکچر بھی دیے۔
3 ہزار گیت مختلف دھنوں میں ترتیب دیے۔ بے شمار نظمیں لکھیں، مختصر افسانے لکھے۔ چند ڈرامے بھی لکھے۔ ہندوستان کی کئی جامعات اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ آپ کو بنگالی زبان کا شیکسپیئر بھی کہتے ہیں۔
1901ء میں رابندر ناتھ ٹیگور ایک آشرم بنانے کے لیے شانتی نکیتن منتقل ہوئے۔ اس میں سنگ مرمر کا ایک عبادت خانہ اور ایک مندر، ایک تجربہ گاہ، سکول، پیڑوں سے لدا علاقہ، باغات، ایک کتب خانہ ہیں۔ اس جگہ ان کی اہلیہ اور دو بچوں کا انتقال ہوا تھا۔ ان کے والد بھی 1905ء میں یہیں انتقال کر گئے تھے۔
تری پورہ کے مہاراجا کی جانب سے ماہانہ وراثتی تنخواہ ملا کرتی تھی۔ شہر پوری کے اپنے بنگلے کو بھی فروخت کر دیا تھا اور اپنی کتابوں کی رائلٹی بھی 2000 روپے تک ملتی رہی، انہیں کافی اچھے بنگالی اور غیر ملکی قارئین میسر تھے۔
بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ ادب کے نوبل انعام یافتہ ادیب، شاعر اور ڈراما نگار رابند ناتھ ٹیگور اسٹیج کے اداکار بھی تھے۔ 1881ء میں کھینچی گئی اک تصویر میں ٹیگور اپنے لکھے ہوئے ڈرامے والمیکی پرتیھبا (والمیکی کی ذہانت) میں اندرا دیوی کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ٹیگور نے تین 3 ہزار گیت بھی لکھے۔ 7 ڈرامے ان کے ذخیرہ تحریر میں ہیں، ان کے مشہور ڈراموں میں ڈاک گھر، راجا اور گورا قابل ذکر ہیں۔
ٹیگور اپنی موت سے قبل آرٹ کی طرف راغب ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی موت سے قبل 2500 پینٹنگز اور ڈرائنگز بھی بنائی تھیں۔ 1934ء کے بعد ٹیگور کی صحت خراب رہنے لگی اور 7 اگست 1941ء کو 80 برس کی عمر میں یہ عظیم تخلیق کار کلکتہ میں انتقال کر گئے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی 4 نظموں کا ترجمہ:
— 1 —
قاری، تم کون ہو جو اب سے سو سال بعد میری نظمیں پڑھ رہے ہو؟
میں تمہیں بہار کی اِس دولت سے ایک بھی پھول، اُس بادل سے ایک بھی سنہری کرن نہیں بھیج سکتا۔
اپنے دروازے کھولو اور باہر دیکھو۔
اپنے پروان چڑھتے ہوئے باغ سے سو سال قبل مٹ گئے پھولوں کی معطر یادیں جمع کرو۔
اپنے دل کی خوشی میں شاید تم اُس زندہ خوشی کو محسوس کر سکو جو ایک بہار کی صبح نغمہ سرا ہوئی، اپنی پُر مسرت آواز کو سو برس دور بھیجتے ہوئے۔
— 2 —
میرے دل کو، جو طائر بیابان ہے، تمہاری آنکھوں میں اپنا آسمان مل گیا ہے۔
یہ صبح کا پنگوڑا ہیں ، ستاروں کی سلطنت ہیں۔
میرے گیت ان کی گہرائیوں میں کھو گئے ہیں۔
مجھے اِس آسمان میں تیرنے دو، اِ س کی غیر آباد وسعت میں۔
مجھے اِس کے بادلوں میں راستہ بنانے دو، اور اِس کی دھوپ میں پر پھیلانے دو۔
— 3 —
اِیسی نگاہ سے تم کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہو؟
میں ایک بھکاری بن کے نہیں آیا۔
میں تمہارے صحن کی بیرونی حد پر، باغ کی باڑھ سے باہر، کچھ دیر کے لیے ٹھہرا تھا۔
اِیسی نگاہ سے تم کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہو؟
میں نے تمہارے باغ سے ایک بھی گلاب نہیں لیا، ایک پھل نہیں توڑا۔
میں نے راستے میں سائبان تلے عاجزی سے پناہ لی، جہاں ہراجنبی مسافر ٹھہر سکتا ہے۔
میں نے ایک بھی گلاب نہیں توڑا۔
ہاں، میرے پاؤں تھکے ہوئے تھے، اور بارش کی بوچھاڑ گر رہی تھی۔
ہوائیں بانس کی جھونکے کھاتی شاخوں میں چیخ اٹھیں۔
بادل آسمان پہ دوڑ رہے تھے جیسے ہار کے بھاگ رہے ہوں۔
میرے پاؤں تھکے ہوئے تھے۔
مجھے معلوم نہیں تم نے میرے بارے میں کیا خیال کیا تھا یا تمہیں دروازے پر کس کا انتطار تھا۔
بجلی کے کوندے تمہاری آنکھوں کو چوندھیا رہے تھے۔
مجھے کیسے پتا چلتا کہ میں جہاں اندھیرے میں کھڑا تھا تمہیں نظر آ سکتا تھا؟
مجھے معلوم نہیں تم نے میرے بارے میں کیا خیال کیا تھا۔
دن ختم ہو گیا ہے اور بارش ایک لمحے کے لئے رک چکی ہے۔
میں تمہارے باغ کی بیرونی حد پر، درخت کا سایا چھوڑ رہا ہوں اور گھاس کی یہ نشست ۔
اندھیرا ہو چکا ہے؛ اپنا دروازہ بند کر لو؛ میں اپنی راہ لیتا ہوں۔
دن ختم ہو چکا ہے۔
— 4 —
چراغ کیوں بجھ گیا؟
میں نے اسے ہوا سے بچانے کے لیے اپنی چادر سے ڈھک دیا تھا، اِس لیے چراغ بجھ گیا۔
پھول کیوں مرجھا گیا؟
میں نے اسے بیقرار محبت سے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا تھا، اِس لیے پھول مرجھا گیا۔
ندی کیوں سوکھ گئی؟
میں نے اپنے استعمال کے لیے اس پر ایک ڈیم بنا دیا تھا، اِس لیے ندی سوکھ گئی۔
بربط کا تار کیوں ٹوٹ گیا؟
میں نے اس سے ایسا سُر نکالنے کی کوشش کی جو اس کے اختیار سے باہر تھا، اِس لیے بربط کا تار ٹوٹ گیا۔