21ویں صدی میں مرد اور خواتین کے درمیان تفریق ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ سائنس کی گہرائیوں سے لے کر کھیل کے میدانوں تک خواتین مردوں سے کم نہیں، لیکن بلوچستان میں صدیوں سے چلی آ رہی قبائلی روایات آج بھی خواتین کے آگے بڑھنے کے سفر میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
قبائلی روایات کی زنجیروں کو توڑ کر بلوچستان کے علاقے ’توبہ کاکڑی‘ سے تعلق رکھنے والی روزی بخت بلوچستان کی پہلی پشتون خاتون فٹبالر ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ روزی بخت گزشتہ 15 سال سے فٹبال کھیل رہی ہیں۔ وہ اپنے فٹبال کے اس سفر میں متعدد قومی اور بین الاقوامی سطح پر صوبے اور ملک کا نام روشن کر چکی ہیں۔
روزی بخت کا سفر
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے روزی بخت نے بتایا کہ نویں جماعت سے فٹبال کھلینے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس دوران مجھے اس کھیل میں روشن مستقبل نظر آیا جس کے بعد میں نے اس کھیل کو اپنی زندگی بنانے کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی مراحل میں میرے والد کو لگا کہ میں صرف شوقیہ طور پر اس کھیل سے وابستہ ہوں مگر جب میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو میرے والد نے مجھے سختی سے منع کر دیا تاہم میرے بھرپور اصرار پر میرے والد نے کہا کہ پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دو اور اس کے بعد کھیل پر۔
معاشرے کی مزاحمت
رشتے داروں نے میرے فٹبال کھیلنے پر مجھ سے قطع تعلق بھی کر لیا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ روزی بخت کا فٹبال کھیلنا ہماری غیرت کے خلاف ہے۔ لیکن اب میرے وہی رشتے دار میری کامیابی پر مجھے مبارک باد دیتے ہیں۔ جب میں نے ایران میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کانسی کا تمغہ حاصل کیا تو انہی رشتے داروں نے مجھے فون کر کے مبارک باد دی اور اپنی سابقہ باتوں پر معذرت خواہ ہوئے اور کہنے لگے کہ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔
روزی بخت کا عزم
’میری خواہش ہے کہ میں دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے سبز ہلالی پرچم بلند کروں۔ نئی آنے والی فٹبالر کے لیے پیغام ہے کہ وہ بھرپور لگن اور شوق سے اپنے کھیل پر توجہ دیں اور آگے بڑھنے کے لیے کوشش کرتی رہیں، ہمت و حوصلہ رکھیں، رکاوٹیں آتی رہیں گی مگر وہ حوصلے پست نہ ہونے دیں۔