الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 4 رکنی کمیشن نے اس اہم مقدمے کی سماعت کی، جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز اور مسلم لیگ (ن) کے وکلا پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں کی تقسیم پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ: الیکشن کمیشن کو فہرست دوبارہ جاری کرنے کا حکم
سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن مرحلہ وار جاری کیے گئے، اور قانون کے مطابق ہر امیدوار کو نوٹیفکیشن کے بعد تین روز کے اندر کسی جماعت میں شمولیت کا اختیار حاصل ہے۔ مخصوص نشستیں سیاسی جماعتوں کو ان کی پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر الاٹ کی جاتی ہیں۔
دورانِ سماعت جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے سوال اٹھایا کہ آیا یہ معاملہ صرف خیبرپختونخوا تک محدود ہے یا اس کا اطلاق پورے ملک پر ہوگا؟ چیف الیکشن کمشنر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ بیٹھ جائیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ وہ اپنے اعتراضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے شارٹ آرڈر کا تفصیلی فیصلہ آ چکا ہے اور جس امیدوار کی بات ہو رہی ہے، انہیں 22 فروری کو نوٹیفائی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ طارق اعوان نے قانون کے مطابق دو روز میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی، لہٰذا ان کا ووٹ اقلیتی نشست پر شمار کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر امیدوار کو 22 فروری کو نوٹیفکیشن ملا تو تین دن کا وقت اسی دن سے گنا جائے گا، اور طارق اعوان کا 4 مارچ کو دیا گیا ووٹ درست تسلیم ہونا چاہیے۔
انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ جب مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی سیٹیں برابر ہیں تو مخصوص نشستوں میں تفاوت کیوں ہے؟ ان کے مطابق دونوں جماعتوں کو نو نو نشستیں ملنی چاہیے تھیں، اور قانون کے مطابق برابری کی صورت میں ٹاس کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب، جے یو آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر طارق اعوان کو 22 فروری کو نوٹیفائی کیا گیا تو کیا اس سے پہلے دی گئی مخصوص نشستیں واپس لی جا سکتی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایک سیٹ کے لیے پورے ملک میں مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشنز کو واپس لینا مناسب نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق اگر طارق اعوان کو شامل کیا گیا تو یہ رولز کی خلاف ورزی ہو گی۔
چیف الیکشن کمشنر نے جے یو آئی کے وکیل سے پوچھا کہ کیا وہ پشاور ہائی کورٹ کی سماعت میں شریک تھے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ پارٹی نہیں بنائے گئے تھے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل نیئر بخاری نے دلائل میں کہا کہ ان کی جماعت کا کیس مختلف ہے کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ان کی صرف چار نشستیں ہیں۔ ان کے مطابق پہلے مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کا معاملہ طے ہونا چاہیے۔
تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستیں جنرل نشستوں کی بنیاد پر الاٹ کی جاتی ہیں، اور یہ عمومی اصول ہے کہ جتنی جنرل نشستیں ہوں گی، اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم نکتہ کٹ آف تاریخ کا ہے، اور قانون میں اس کے لیے کوئی لازمی وقت متعین نہیں کیا گیا۔
ممبر الیکشن کمیشن نثار درانی نے سوال کیا کہ اگر ضمنی انتخابات کے نتیجے میں کسی جماعت کی نشستیں کم ہو جائیں تو کیا مخصوص نشستیں بھی کم کی جا سکتی ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں واپس نہیں لی جا سکتیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں تحفظات ہیں کہ ان کے دو نمائندوں کو ایک سمجھا گیا، جبکہ نوٹیفکیشن کے مطابق ان کی دو مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کو کتنی نشستیں ملیں گی؟
تمام وکلا کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔