اسرائیل میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو اس وقت شدید سیاسی بحران کا سامنا ہے جب ان کی حکومت کی 2 اہم اتحادی جماعتوں نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ان جماعتوں کا تعلق الٹرا آرتھوڈوکس یہودی حلقوں سے ہے، اور علیحدگی کی وجہ مدرسے کے طلبہ کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دینے کے قانون پر اختلافات کو قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق بدھ کے روز شاس پارٹی نے اعلان کیاکہ وہ لازمی فوجی خدمات کے متنازعہ قانون کے باعث حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو رہی ہے۔ شاس جماعت کی علیحدگی کے بعد وزیراعظم نیتن یاہو کی پارلیمانی اکثریت ختم ہوچکی ہے اور اب وہ اقلیت میں آگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو نے ایران کے خلاف جنگ میں جادو اور جنات سے مدد لی، حیران کن دعویٰ سامنے آگیا
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب رواں ہفتے کے آغاز میں ایک اہم مذہبی جماعت ’یونائیٹڈ تورات یہودیت‘ (یو ٹی جے) بھی حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوگئی تھی۔ یو ٹی جے نے ایک بیان میں کہاکہ حکومت مدرسے کے طلبہ کو لازمی فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنے کے بل کی تیاری میں ناکام رہی ہے، اس لیے وہ اتحاد سے علیحدگی اختیار کر رہی ہے۔
روئٹرز کے مطابق یو ٹی جے کے 7 ارکان میں سے 6 نے وزیراعظم نیتن یاہو کو خطوط لکھ کر اپنے استعفے پیش کیے، جب کہ جماعت کے چیئرمین پہلے ہی ایک ماہ قبل مستعفی ہو چکے ہیں۔ یہ جماعت دو اہم مذہبی دھڑوں دجل ہاتورۃ اور اگودات یسرائیل پر مشتمل ہے۔
یو ٹی جے کے انخلا کے بعد نیتن یاہو کی 120 رکنی اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسیٹ) میں 61 نشستوں کی کمزور اکثریت رہ گئی ہے، اور ان کی حکومت اقلیت میں تبدیل ہو چکی ہے۔
تاہم شاس پارٹی نے اتحاد سے علیحدگی کے باوجود کہا ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کرے گی اور بعض قوانین پر پارلیمنٹ میں نیتن یاہو کا ساتھ دے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو غزہ مذاکرات سبوتاژ کرکے ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ذلت کا باعث بن گئے، اسرائیلی اخبار ہاریٹز
مدرسہ طلبہ کی فوج میں بھرتی کا معاملہ اسرائیل میں طویل عرصے سے سیاسی کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے۔ نیتن یاہو کی موجودہ حکومت، جس میں مذہبی جماعتوں کا کلیدی کردار رہا ہے، اس مسئلے پر مسلسل دباؤ میں ہے۔ اب ان جماعتوں کی علیحدگی کے بعد حکومت کی بقا اور قانون سازی کی صلاحیت مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔