سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے جعلی یا کالعدم قرار دی گئی 7 تعلیمی اسناد حاصل کر کے نیا ’ریکارڈ‘ قائم کیا۔ انہوں نے یہ جعلی ڈگریاں ڈی جی خان، ملتان، بہاولپور سے لے کر کراچی تک کے تعلیمی اداروں سے ’حاصل‘ کیں۔ تاہم، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) نے حال ہی میں ان کی ڈگریاں جعلی ثابت ہونے پر انہیں نا اہل قرار دے دیا ہے۔
جمشید دستی کی ڈگریاں، ایک کے بعد ایک جعلی
ای سی پی میں دائر ریفرنس کے مطابق، شکایت کنندہ کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ خان نے جو ریکارڈ پیش کیا، اس کے مطابق:
2002: جمشید دستی کی میٹرک کی سند منسوخ قرار دی گئی۔
2005: انٹرمیڈیٹ کی سند بھی غیر معتبر ثابت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے الیکشن کمیشن نے جمشید دستی کو نااہل قرار دیدیا
2008: انہوں نے ’شہادت العالیہ‘ (ایک دینی سند جو اُس وقت گریجویشن کے برابر سمجھی جاتی تھی) حاصل کی اور اسی بنیاد پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ تاہم، جب معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا، تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ نے جمشید دستی کے دینی علم کا امتحان لیا مگر وہ ایک بھی سوال کا جواب نہ دے سکے اور مجبوراً مستعفی ہو گئے۔
جعلی FA اور BA، پھر LLB کی کوشش
بعدازاں، جمشید دستی نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے FA اور BA کی اسناد حاصل کیں اور BA کی بنیاد پر قانون کی ڈگری (LLB) کے لیے داخلہ لیا، لیکن پہلے سال میں ناکام ہو گئے۔
2024 کے عام انتخابات میں انہوں نے انہی ڈگریوں کی بنیاد پر حصہ لیا اور کامیاب بھی ہوئے، مگر جب ان کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال ہوئی تو معلوم ہوا کہ:
FA اور BA دونوں ڈگریاں جعلی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے قومی اسمبلی میں جمشید دستی کا پی ٹی آئی قیادت کو سجدہ، اصل بات کیا ہے؟
انہوں نے ایک نئی FA ڈگری کراچی بورڈ سے جمع کروائی، مگر وہاں بھی تضادات سامنے آئے — کراچی بورڈ کے ریکارڈ میں ان کا نام جمشید احمد تھا، جبکہ اصل قانونی نام جمشید احمدہے، والد کا نام تو ایک جیسا تھا مگر پیدائش کی تاریخ مختلف۔
اثاثے چھپانے کا الزام، نااہلی میں مزید وزن
الیکشن کمیشن کو اثاثے چھپانے کے بھی شواہد ملے، جس کے بعد نااہلی کے فیصلے کو تقویت ملی۔
’جعلی ڈگری سیاست‘ کا انجام
جمشید دستی کی جانب سے تعلیمی اور قانونی نظام کا مسلسل غلط استعمال نہ صرف جمہوری اقدار بلکہ عوامی اعتماد کے لیے بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ ان کا یہ ’ریکارڈ‘ ملک میں جعلی ڈگری کے مسئلے کو ایک بار پھر نمایاں کر گیا ہے۔