یورپی یونین نے روس کے خلاف پابندیوں کے 18ویں مرحلے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ اُس وقت ممکن ہوا جب سلواکیہ نے اپنی مخالفت ختم کر دی۔
تازہ پابندیوں میں روس کے خفیہ بحری بیڑے، توانائی اور بینکاری کے شعبے شامل ہیں۔ روسی تیل کی قیمت کی حد 60 ڈالر سے کم کر کے 45 ڈالر فی بیرل کر دی گئی ہے، جبکہ یورپی یونین کو روسی نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائنوں تک رسائی پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس بار یورپی یونین نے پہلی مرتبہ کسی ’فلیگ رجسٹری‘ اور روسی کمپنی ’روزنیفٹ‘ کی بھارت میں سب سے بڑی ریفائنری پر بھی پابندیاں لگائی ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ، کایا کالاس کا اس صورتحال کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں، اور اس جنگ کو روکنا ماسکو کے لیے واحد راستہ بن جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:پیٹریاٹ میزائل کیا ہیں، اور یوکرین کو ان کی اتنی اشد ضرورت کیوں ہے؟
یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیر لاین نے پابندیوں کے اعلان پر کہا کہ ہم روس کی جنگی مشین کے دل پر وار کر رہے ہیں۔ یہ دباؤ جاری رہے گا جب تک پوٹن یہ جنگ ختم نہیں کرتے۔
یہ پابندیاں ان 17 سابقہ پیکجوں کی کڑی ہیں جو روس کے 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد سے لگائی گئی ہیں۔ ان اقدامات میں اب تک 24 ہزار سے زائد افراد اور ادارے پابندیوں کی زد میں آ چکے ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ پابندیاں امریکا، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ نے لگائیں۔
یوکرین کی نئی وزیر اعظم یولیا سورویدنکو نے یورپی یونین کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پابندیاں روس کی جنگی صلاحیتوں کو کمزور کرنے میں مدد کریں گی۔ ابھی مزید اقدامات باقی ہیں، لیکن ہر اقدام روس کو پیچھے دھکیلنے میں مدد دے رہا ہے۔
سلواکیہ کئی دن تک اس پیکیج کی مخالفت کرتا رہا تھا کیونکہ وہ 2034 تک روسی گیس کی فراہمی کے معاہدے کو جاری رکھنا چاہتا تھا، تاہم جمعرات کی رات صدر رابرٹ فیکو نے فیس بک ویڈیو کے ذریعے اپنی شرط واپس لے لی، جس کے بعد تمام 27 ممالک کی رضامندی سے پابندیاں منظور ہو گئیں۔