صدر پیوٹن اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا، جس میں یوکرین تنازع اور شام میں حالیہ کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:’مغرب کے ساتھ یک طرفہ کھیل ختم‘، پیوٹن کا اعلان
کریملن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ماسکو اور کییف کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور کے امکان پر بھی گفتگو کی۔
بیان کے مطابق دونوں صدور نے استنبول میں روس-یوکرین مذاکرات کے تیسرے دور کے انعقاد پر بات کی۔

رواں سال پہلے ہی ترکیہ میں فریقین کے درمیان 2 براہِ راست ملاقاتیں ہوچکی ہیں، جن کے ذریعے اُن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی گئی تھی جنہیں کییف نے 2022 میں یکطرفہ طور پر ترک کر دیا تھا تاکہ مغربی حمایت سے فوجی فتح حاصل کی جا سکے۔
جون میں ہونے والی آخری ملاقات میں مجوزہ امن معاہدے کے مسودے کا تبادلہ ہوا اور قیدیوں کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔ ماسکو کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:شام کی تقسیم ناقابلِ قبول، اسرائیل دہشتگرد ریاست ہے، رجب طیب اردوان
صدر پیوٹن نے جون کے آخر میں کہا تھا کہ روس تقریباً 6,000 لاشیں کییف کے حوالے کر چکا ہے اور مزید 3,000 لاشیں واپس دینے کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا اب یہ یوکرینی فریق پر منحصر ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کی باقیات وصول کرے۔

پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ جیسے ہی یہ مرحلہ مکمل ہو، مذاکرات کا تیسرا دور طے کیا جائے گا۔ ہم مکمل طور پر تیار ہیں، صرف وقت اور مقام پر اتفاق کی ضرورت ہے۔
ٹیلیفونک گفتگو کے دوران پیوٹن نے یوکرین تنازع کے سیاسی و سفارتی حل کی حمایت کا اعادہ کیا اور اردوان کی ثالثی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
اردوان نے بھی عندیہ دیا کہ ترکیہ، استنبول میں مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے، جب فریقین مناسب تاریخوں پر متفق ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی ولی عہد کا شام میں کشیدگی پر قابو پانے کے اقدامات کا خیرمقدم
شام کے معاملے پر دونوں رہنماؤں نے السویداء شہر میں حکومت اور دروز اقلیت کے درمیان جاری جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
ادھر اسرائیلی افواج نے جنوبی شام اور دمشق پر فضائی حملے کیے ہیں، جنہیں اسرائیل نے دروز برادری کے تحفظ کے لیے قرار دیا ہے۔

کریملن کے مطابق پیوٹن اور اردوان نے اس کشیدگی پر گہری تشویش ظاہر کی اور جلد از جلد بات چیت کے ذریعے صورتحال کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اردوان نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی فضائی حملے شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔














