وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار نے سینیٹ کو آگاہ کیا ہے کہ ہر سال تقریباً 13,000 سے 15,000 پاکستانی طلبہ برطانیہ جاتے ہیں اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے اجلاس کے دوران ہوا، جس کی صدارت سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کی۔
یہ بھی پڑھیں:ای ویزا: برطانیہ کا ویزا نظام ڈیجیٹل ہوگیا، پاکستانی طلبا اور ہنرمندوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
وزارتِ خارجہ کے نمائندے نے کہا کہ یہ طلبہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اکثر برطانیہ میں ہی مقیم رہتے ہیں اور کم اجرت والی ملازمتیں اختیار کر کے مقامی افرادی قوت میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اہلکار کے مطابق یہ طلبہ تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد برطانوی لیبر مارکیٹ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ اس وقت تقریباً 18 لاکھ پاکستانی شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔
تاہم وزارتِ خارجہ کے اہلکار نے یہ بھی نشاندہی کی کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو انگریزی زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسی ہفتے برطانوی حکومت نے پاکستانی طلبہ اور کارکنان کے لیے ای-ویزا کا آغاز کیا ہے، جو امیگریشن اور بارڈر نظام کو جدید بنانے کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایک اور پاکستانی ایئرلائن برطانیہ کے لیے اُڑان بھرنے کو تیار
یہ اقدام حال ہی میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ٹریڈ ڈائیلاگ میکنزم معاہدے پر دستخط کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت یوکے-پاکستان بزنس ایڈوائزری کونسل بھی قائم کی گئی ہے تاکہ دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو فروغ دیا جا سکے۔
مزید یہ کہ برطانیہ نے بدھ کے روز پاکستان کا نام ایئر سیفٹی لسٹ سے خارج کر دیا ہے، جس سے پاکستانی ایئرلائنز کو برطانیہ کے لیے پروازوں کی اجازت حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
دوسری جانب برطانیہ کے ایک اہلکار نے مئی میں کہا تھا کہ حکومت ان ممالک کے طلبہ پر ویزا پابندیوں پر غور کر رہی ہے، جن کے شہری پناہ کی درخواستیں زیادہ جمع کراتے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ اقدام خالص امیگریشن میں کمی لانے کی پالیسی کا حصہ ہے۔
یہ مجوزہ تبدیلیاں ان مقامی انتخابات کے بعد سامنے آئی ہیں جن میں وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی لیبر پارٹی کو امیگریشن پالیسیوں پر عوامی ناراضگی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔