پاکستانی روپیہ مسلسل گراؤٹ کا شکار ہے، 19 جولائی 2025 کو انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 284.9 روپے رہی، جبکہ اوپن مارکیٹ میں یہ 287.1 روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی۔
واضح رہے کہ روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جولائی 2022 سے جاری ہے، جب ڈالر 204 روپے کا تھا۔ لیکن پھر گزشتہ چند عرصے سے پاکستانی معیشت مستحکم ہونا شروع ہوئی، اور روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہا، لیکن اب ایک بار پھر روپے کی قدر مسلسل ڈالر کے مقابلے میں کم ہورہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈالر کی قیمت 235 روپے ہونے کے باوجود بھی 278 روپے کیوں؟
روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراؤٹ کا شکار کیوں ہے؟ اس حوالے سے ’وی نیوز‘ نے چند ماہرین سے بات کی اور اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالرز کی خریداری ہے، شہباز رانا
معاشی ماہر شہباز رانا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت روپے کی قدر میں جو مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر ڈالرز کی خریداری ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس غیر ملکی کرنسی کے ذخائر پہلے ہی محدود تھے، جس کے باعث آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے اور چین کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بینک کو اوپن مارکیٹ سے ڈالرز اکٹھے کرنا پڑے۔
انہوں نے کہاکہ یہ اقدام نہ صرف روپے پر دباؤ کا باعث بنا بلکہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اس بار کے آئی ایم ایف پروگرام سے وہ نتائج حاصل نہیں کر پا رہا جو ماضی میں حاصل ہوتے رہے ہیں۔
شہباز رانا کے مطابق گزشتہ آئی ایم ایف پروگرامز کے دوران پاکستان کو بیرونی قرضے نسبتاً آسانی سے میسر آ جاتے تھے، جن سے مالی ضروریات پوری کر لی جاتی تھیں، مگر اس بار صورتحال مختلف ہے۔ کمرشل قرضوں کا حصول مشکل ہو چکا ہے۔
’حالیہ مثال کے طور پر پاکستان نے ایک ارب ڈالر کا کمرشل قرض ضرور حاصل کیا ہے، مگر وہ بھی ایشیائی ترقیاتی بینک کی گارنٹی پر ممکن ہوا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالرز کی بے تحاشا خریداری ہے، جس نے نہ صرف مارکیٹ میں توازن بگاڑا بلکہ افواہوں اور غیر یقینی کی فضا کو بھی جنم دیا ہے۔ اسی غیر یقینی صورتحال میں ایک بار پھر مارکیٹ میں گرے ریٹ بحال ہوا ہے، جو 2 سال قبل ختم کردیا گیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت مارکیٹ میں تین طرح کے ایکسچینج ریٹس چل رہے ہیں۔ انٹر بینک، اوپن مارکیٹ اور اب گرے مارکیٹ ریٹ، جس سے سرمایہ کاروں اور تاجروں میں مزید ابہام پیدا ہورہا ہے۔
شہباز رانا نے کہاکہ اسی دوران حکومت نے نئی نیشنل ٹیرف پالیسی بھی منظور کر لی ہے، جس کے تحت درآمدات پر کسی قسم کی سخت پابندی عائد نہیں کی جائے گی، اس پالیسی سے درآمدی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو آنے والے دنوں میں روپے کی قدر پر مزید منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے، تو آنے والے مہینوں میں روپیہ مزید کمزور ہو سکتا ہے، جو مہنگائی اور درآمدی لاگت میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔
روپے کی قدر میں گراؤٹ کی وجہ کرنسی کی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی ہے، عابد سلہری
ماہر معاشیات عابد سلہری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ روپے کی قدر میں گراؤٹ کی ایک وجہ کرنسی کی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں جب ایل سی اور امپورٹ پر پابندی تھی، جس کی وجہ سے ڈالرز اور فارن ایکسچینج کی جو ڈیمانڈ تھی، اس کو مستحکم رکھا گیا تھا، اب جیسے جیسے چیزیں نارمل ہو رہی ہیں اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ زیادہ ہے، تو جب مارکیٹ کی ڈیمانڈ زیادہ ہوگی تو روپے کی قدر میں کمی ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ اس کی دوسری وجہ آئی ایم ایف کا ٹارگٹ ہے جس کے تحت اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہے، اس پابندی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خرید رہا ہے، جس کی وجہ سے ڈالر کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہورہا ہے، اور مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی آرہی ہے۔
ڈالرز کی قلت نے روپے پر دباؤ بڑھا دیا ہے، راجا کامران
معاشی ماہر راجا کامران نے کہاکہ کچھ عرصہ قبل تک پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدرے مستحکم ہورہا تھا، اس کی بنیادی وجہ امریکا میں بڑھتی ہوئی افراطِ زر اور شرحِ سود میں اضافہ تھی، جبکہ پاکستان میں اقتصادی بہتری کے اشارے نظر آ رہے تھے۔
’معاشی ماہرین کا خیال تھا کہ ان عالمی اور مقامی عوامل کی روشنی میں روپے کی حقیقی قدر 200 روپے فی ڈالر کے قریب ہونی چاہیے، لیکن موجودہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی پالیسی اختیار کی، جس کے تحت ڈالر کی قدر کو 270 سے 280 روپے کے درمیان رکھا گیا۔ اس پالیسی کا ایک نمایاں فائدہ یہ ہوا کہ اندرونِ ملک اشیائے صرف کی قیمتوں میں استحکام رہا اور مہنگائی کی شدت میں نسبتاً کمی آئی۔‘
راجا کامران کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کی مالی صورتحال پر دباؤ بڑھا ہے، خاص طور پر جب سے عالمی قرض دہندگان کو قریباً 23 ارب ڈالر کی ادائیگی کی ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے۔ اس ادائیگی میں کئی مالی گیپس بھی موجود ہیں، جنہیں پورا کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک متحرک ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ڈالر کی قدر میں ایک بار پھر اضافے سے اشیا کی قیمتیں بھی بڑھیں گی؟
انہوں نے کہاکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خرید رہی ہے، جبکہ اسٹیٹ بینک اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے ڈالرز اکٹھے کررہا ہے۔ اسی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی دستیابی مشکل ہوتی جا رہی ہے، اور ڈالر کی اس قلت نے روپے پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔