’دی سلیپنگ پرنس‘ شہزادہ الولید بن خالد بن طلال کون تھے؟

پیر 21 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

2 دہائیوں سے زائد عرصے تک کومے کی حالت میں رہنے والے سعودی شاہی خاندان کے رکن شہزادہ الولید بن خالد بن طلال 36 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، عرب میڈیا اور عوامی حلقوں میں انہیں ’دی سلیپنگ پرنس‘ یعنی سوئے ہوئے شہزادے کے نام سے جانا جاتا تھا۔

شہزادہ الولید بن خالد بن طلال 2005 میں ایک سنگین ٹریفک حادثے کے بعد دماغی چوٹ کا شکار ہوئے تھے اور تب سے مسلسل بے ہوشی کی حالت میں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سلیپنگ پرنس: ولید بن طلال کا 20 سال کومہ میں رہنے کے بعد انتقال، والد نے آخری لمحہ تک امید نہ چھوڑی

1990 میں پیدا ہونیوالے شہزادہ الولید 2005 میں جب وہ فوجی کالج میں زیرِ تعلیم تھے، ایک خوفناک سڑک حادثے کا شکار ہو نے کے بعد سے مسلسل کوما میں رہے۔

 https://Twitter.com/RoyaNewsEnglish/status/1946614996818878528

ان کی حالت کو نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری عرب دنیا میں انسانی ہمدردی کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا رہا، ان کے والد شہزادہ خالد بن طلال نے اپنے بیٹے کے علاج پر سالہا سال انتھک توجہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیے رکھا کہ جس خدا نے جان محفوظ رکھی ہے، وہ شفا دینے پر بھی قادر ہے۔

مزید پڑھیں: ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا انقلابی اقدام: سعودی شہروں کے لیے نیا تعمیراتی وژن

انہوں نے بیٹے کو کسی اسپتال کے بجائے گھر میں انتہائی نگہداشت کے ماحول میں رکھا، جہاں جدید ترین طبی سہولیات دستیاب تھیں۔

امریکی اور ہسپانوی ڈاکٹرز پرمشتمل ایک بین الاقوامی ماہرین کا ایک وفد 2017 میں شہزادہ الولید کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے سعودی عرب آیا تھا، وقتاً فوقتاً ان کی معمولی جسمانی حرکت کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں، جن میں 2019 کی ایک ویڈیو خاص طور پر مشہور ہوئی جس میں کوماٹوز شہزادےنے سر ہلایا تھا۔

شہزادی ریما بنت طلال نے، جو ان کی پھوپھی اور معروف کاروباری شخصیت شہزادہ الولید بن طلال کی بہن ہیں، بارہا سوشل میڈیا پر ان کی حالت اور پرانی یادوں کو اجاگر کیا، رواں برس کے اوائل میں ان کے ہوش میں آنے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں، تاہم شاہی خاندان نے ان کی تردید کی۔

شہزادہ الولید کی 21 سالہ کہانی صرف ایک طبی معاملہ نہیں تھا، بلکہ ایک انسانی داستان تھی جس میں صبر، وفا، اور امید کے وہ پہلو نمایاں تھے جو معاشروں کو جوڑتے ہیں۔

مزید پڑھیں: وژن 2030: سعودی عرب نے 2024 کی سالانہ رپورٹ جاری کردی، ریکارڈ کامیابیاں

ان کی جدوجہد، والدین کی استقامت، اور قوم کی اجتماعی دعاؤں نے انہیں ایک زندہ استعارہ بنا دیا، ایسا استعارہ جو صرف زندگی میں نہیں، بلکہ موت کے بعد بھی دلوں میں زندہ رہتا ہے۔

ان کی رحلت کے ساتھ ایک باب ختم ہوا، مگر ان کی کہانی آنے والے وقت میں انسانی جذبوں، والدین کی بے لوث محبت اور معجزے کی اُمید کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp