چین نے دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کی تعمیر شروع کردی ہے، جس نے بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ہمسایہ ممالک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
چین نے تبت کے خودمختار علاقے میں واقع دنیا کے سب سے گہرے اور طویل زمینی درّے میں ایک بڑے آبی بجلی منصوبے پر کام تیز کر دیا ہے۔ اس منصوبے پر ماحولیاتی ماہرین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی فول پروف سیکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت
خطے کا سب سے لمبا دریا ہے۔ دریا ایک مقام پر نامچا بروا پہاڑ کے گرد انتہائی تیز یو شکل کا موڑ لیتا ہے، جسے ’عظیم موڑ‘ کہا جاتا ہے۔ اس مقام پر دریا کی سطح سیکڑوں میٹر نیچے گرتی ہے، جو آبی بجلی کی پیداوار کے لیے انتہائی موزوں مقام تصور کیا جاتا ہے۔
چینی حکام نے کئی سال سے اس علاقے کی قدرتی توانائی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس منصوبے کے تحت نامچا بروا پہاڑ کے نیچے سے بیس کلومیٹر لمبی کئی سرنگیں کھودی جائیں گی، جن کے ذریعے دریا کے پانی کا رخ موڑ کر 5 درجہ وار بجلی گھر تعمیر کیے جائیں گے۔
چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم لی چیانگ کے حالیہ دورہ تبت کے دوران اس منصوبے پر پیش رفت کی تصدیق کی گئی۔ ان کے بقول، اس مقام پر پانی کو سرنگوں کے ذریعے موڑ کر دریا کو سیدھا کیا جائے گا، تاکہ یکے بعد دیگرے 5 بجلی گھر تعمیر کیے جاسکیں۔
یہ منصوبہ صدر شی جن پنگ کی اُس پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد مغربی علاقوں میں پیدا ہونے والی بجلی کو مشرقی شہروں تک پہنچانا ہے۔ اس حکمت عملی کو ’مغرب کی بجلی، مشرق کو‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چین کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف ملک میں توانائی کی ضروریات پوری کرے گا بلکہ تبت جیسے دور دراز علاقوں کو ترقی یافتہ بناے میں بھی کردار ادا کرے گا۔
ماحولیاتی تباہی اور خطرناک خطہ
تاہم، انسانی حقوق کے علمبردار اس منصوبے کو تبتی وسائل کے استحصال سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت ان منصوبوں کے ذریعے تبت کی زمین، اس کے دریاؤں اور قدرتی وسائل پر قابض ہورہی ہے اور مقامی لوگوں کی رائے کو مکمل نظر انداز کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: داسو ڈیم میگا منصوبے پر کام کرنے والا چینی باشندہ گرفتار، ایف آئی آر درج
ماحولیاتی ماہرین نے بھی شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیم ایسے علاقے میں بنایا جارہا ہے جو زلزلہ خیز فالٹ لائنوں پر واقع ہے، اس لیے کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ منصوبہ ان وادیوں کو بھی زیرِآب کر دے گا جو اپنی حیاتیاتی تنوع اور قدرتی خوبصورتی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔
بھارت اور بنگلہ دیش کی تشویش
یارلونگ سانگپو دریا نیچے بھارت میں دریائے برہم پتر کی صورت اختیار کرتا ہے، جو بنگلہ دیش میں جا کر دیگر دریاؤں میں شامل ہوتا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کو اندیشہ ہے کہ چین کی جانب سے دریا کے بہاؤ کو موڑنے یا روکنے کی کوششوں سے ان کے آبی وسائل متاثر ہوں گے، جس سے زراعت، ماحولیاتی توازن اور عوامی زندگی کو نقصان پہنچے گا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترقی کے نام پر ماحولیات کی تباہی، ثقافت کی پامالی اور انسانی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے،جسے کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔