بہار میں آئندہ انتخابات کے پیش نظر لاکھوں مسلمانوں، دلتوں اور غریبوں کو ووٹر لسٹ سے خارج کرنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے، جو وہاں کے جمہوری عمل پر ایک گہرا سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق، یہ عمل ہندوتوا نظریے کے تحت اقلیتوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے حکومتی منصوبے کا حصہ ہے۔
دی ٹریبیون انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بہار کے مسلم اکثریتی اضلاع مدھو بنی، مشرقی چمپارن، پورنیہ اور ستمرھی میں ووٹر لسٹ سے ہزاروں نام نکال دیے گئے ہیں۔ مدھوبنی میں 3,52,545 فارم جمع نہ ہونے کی وجہ سے ووٹرز کو ممکنہ طور پر فہرست سے خارج کیا جا رہا ہے، جبکہ مشرقی چمپارن، پورنیہ اور ستمرہی میں بھی لاکھوں ووٹرز کے فارم واپس نہیں آئے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق بہار کے 10 اضلاع میں سب سے زیادہ ووٹرز کو مردہ، منتقل شدہ یا دہری رجسٹریشن کی بنیاد پر نکالا گیا ہے، اور مجموعی طور پر 65 لاکھ سے زائد ووٹرز کی فہرستوں میں کٹوتی کی گئی ہے۔ فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ یکم ستمبر مقرر کی گئی ہے، جس کے بعد اعتراضات کی سماعت کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: مودی سرکار کا جنگی جنون بے قابو، خطے کا امن خطرے میں ڈالنے کی نئی کوششیں بے نقاب
حکومت کی جانب سے ایس آئی آر (سرکاری شناختی رجسٹریشن) کے نام پر اقلیتوں اور غریبوں کو منظم طور پر ووٹر لسٹ سے خارج کرنے کے الزامات عروج پر ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس عمل کو جمہوریت کی سنگین خلاف ورزی اور اقلیت دشمنی قرار دیا ہے۔
مودی حکومت کا نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ محض ایک سیاسی دعویٰ ثابت ہو رہا ہے، جبکہ حقیقت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انتخابی حقوق محدود کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس منظم اخراج کا مقصد انتخابات میں اقلیتوں کی سیاسی طاقت کو کمزور کرنا اور ہندوتوا ایجنڈے کو تقویت دینا ہے، جس سے خطے میں سماجی و سیاسی تناؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔