امریکا کی وفاقی اپیل کورٹ نے اس حکم امتناع کو منسوخ کر دیا ہے، جس کے تحت محکمہ خارجہ کو غیر ملکی امداد کی ادائیگیاں جاری رکھنے کا پابند بنایا گیا تھا۔ اس فیصلے کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک اہم قانونی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کے 3 رکنی اپیل بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ ماتحت عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو کانگریس کی منظور یافتہ غیر ملکی امداد بحال کرنے کا حکم دے کر غلطی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کے لیے 397 ملین ڈالرز سمیت غیرملکی امداد کے منجمد فنڈز میں سے 5.3 ارب ڈالر جاری کردیے
یاد رہے کہ ٹرمپ نے 20 جنوری کو دوسری مدتِ صدارت کے آغاز پر 90 دن کے لیے تمام غیر ملکی امداد عارضی طور پر روک دی تھی۔ اس اقدام کے بعد امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ (USAID) کے بیشتر عملے کو رخصت پر بھیجا گیا اور ادارے کو محکمہ خارجہ کے ماتحت کرنے پر غور کیا گیا۔
دو غیر منافع بخش اداروں ایڈز ویکسین ایڈووکیسی کولیشن اور جرنلزم ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے اس پابندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
ڈسٹرکٹ جج امیر علی جو صدر جو بائیڈن کے نامزد کردہ ہیں، نے ٹرمپ انتظامیہ کو قریباً 2 ارب ڈالر کی بقایا امداد دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کو ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اپیل کورٹ کی جج کیرن ہینڈرسن نے اکثریتی رائے لکھتے ہوئے کہاکہ درخواست گزار اپنے دعوے کے لیے قانونی بنیاد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے حکم امتناع کا جواز نہیں بنتا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی رکن کانگریس نے افغان طالبان کی مالی امداد سے متعلق خطرے کی گھنٹی بجادی
ہینڈرسن جو ریگن دور میں نامزد ہوئی تھیں، نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالت فی الحال اس بات کا تعین نہیں کررہی کہ ٹرمپ کی امداد معطلی آئین سے متصادم ہے یا نہیں۔ ان کے مؤقف سے ٹرمپ کے نامزد کردہ جج گریگوری کاٹساس نے اتفاق کیا۔ البتہ بائیڈن کی نامزد کردہ جج فلورنس پین نے اختلافی نوٹ میں کہاکہ اس فیصلے سے ایگزیکٹو کو قانون اور آئینی اختیارات کی علیحدگی کو نظرانداز کرنے کا موقع ملتا ہے، جو طاقت کے توازن اور جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہے۔













