چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان منگل کے روز گرفتار ہوئے تو رات گئے تک یہی خبریں آتی رہیں کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان ملک کی سرکاری اور نجی املاک میں گھس گئے ہیں۔
کارکنوں نے مشتعل ہو کر عمارتوں اورگھروں کو آگ لگا دی ہے۔ توڑ پھوڑ شروع کر دی ہے، ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کر دی گئیں ہیں۔ یہ خبریں میرے دماغ میں گونج رہی تھیں کہ اگر اب یہ صورت حال ہے تو بدھ کی صبح لاہور سمیت ملک بھر میں کیا ہوگا۔ میں کس، کس پوائنٹ پر جاؤں گا لکین صبح جب اٹھا تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ ماڈل ٹاؤن، لبرٹی، گلبرگ اور کینٹ سیمت لاہور کے سب علاقے آزاد تھے۔
میں گھر سے نکلا ماڈل ٹاؤن پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ یہاں تو زندگی رواں دواں ہے میں نے اس کو آنکھوں کا دھوکا سمجھتے ہوئے اپنی گاڑی لبرٹی کی طرف موڑ دی تاکہ وہاں جا کر دیکھوں کے مشتعل کارکنوں کے ہاتھوں کچھ بچا بھی ہے کہ نہیں۔
میرا گماں تھا کہ کارکنوں نے تو ابھی تک سب کچھ بلاک کر دیا ہوگا لیکن وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لبرٹی عسکری ٹاور کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ جلی ہوئی اشیا سڑک پر بکھری پڑی ہیں۔ لیکن اب وہاں آنے جانے والوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنے کے لیے وہاں سے بلا روک رکاوٹ گزر رہا تھا۔ میں بھی چلتے چلتے گلبرگ پہنچ گیا۔
’حفیظ سینٹر‘ کے دوکاندروں کی آنکھوں میں عجیب سا خوف تھا۔ میں گلبرگ سے سیدھا ’حفیظ سینٹر‘ پہنچا جہاں دوکانداروں سے عمران خان کی گرفتاری کے بعد کی صورت حال پر تاثرات پوچھے تو سب پریشان دکھائی دیے، بولے بیٹا اس ملک میں کچھ تبدیل نہیں ہو سکتا یہاں سیاست دانوں سمیت تمام ادارے اپنے مفاد میں عوام کو ’چونا لگا رہے ہیں‘، آج عوام میں غصہ ہے کل ٹھنڈا ہو جائے گا یہ جملہ کہہ کردوکاندار اپنی دوکان سے اُٹھ کر چل دیے، میں بھی وہاں سے اپنی اگلی منزل کی طرف چل نکلا۔
لاہور کینٹ میں ’ہو کا عالم‘ تھا
میں ’حفیظ سینٹر‘ سے نکل کر کینٹ کی طرف جانے لگا اور اپنے موبائل سے اطرف کی تصویریں لیتے ہوئے ’کینٹ‘کراس کیا، یہاں ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی مارکیٹیں بند تھیں، ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی مگر ڈیوٹی پر تعینات فوجی جوان ہر کسی کو مسکراتے ہوئے سلام کرتے ہوئے آگے جانے کا کہہ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں پراب کوئی نہیں رہتا ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ میں گاڑی چلاتے ہوئے سیدھا کور کمانڈر ہاؤس پہنچ گیا۔
کورکمانڈرجناح ہاؤس اورکھنڈرات کے مناظر
میں کورکمانڈر ہاؤس پہنچا اور اجازات لے کر گھر کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر کے ہر کمرے سے دھواں ہی دھواں نکل رہا ہے۔ بجلی کی وائرنگ تک جل چکی تھی۔
کھڑکیوں اور دروازوں کے شیشے زمین پر بکھرے پڑے تھے، کچن میں پڑے برتن بھی آگ کی نذر ہو چکے تھے گھر کا جم خانہ ڈھانچے میں بدل چکا تھا، دیواریں دھویں کی وجہ سے کالی سیاہ ہوگئی تھیں۔
گھر کی ہر چیز راکھ بن چکی تھی۔ جو در و دیوارکل تک شان و شوکت کی علامت تھے آج کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی تھے۔ وہاں پر موجود عملہ گھر کی صفائی اور ملبہ اٹھانے میں مصروف تھا۔ پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے مشتعل کارکنان نے مین گیٹ کے سامنے لگی علامتی توپ کو بھی دو ٹکروں میں تقسیم کردیا یہ سب مناظردیکھ کر میں نے واپسی کی راہ لی۔
یہ فائنل راؤنڈ ہے
کینٹ سے نکل کر میں واپس جیل روڈ کی طرف بڑھا تو دیکھتا ہوں کہ ’پی ٹی آئی‘ کے کارکنوں نے ٹائر جلا کرروڈ بلاک کر دی ہے اور سڑک کے درمیان کنٹینرز کھڑے دیے گئے ہیں۔ میں گاڑی سے اترکر احتجاج کرنے والوں کے پاس پہنچا تو یہاں ایک ادھیڑ عمر شخص ملا جو اونچی اونچی آواز میں کہہ رہا تھا کہ یہ فائنل راؤنڈ ہے، یہ فائنل راؤنڈ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا یہ ’فائنل راؤنڈ‘ کیوں ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ ہمارے بچے ابھی تک گندا پانی پیتے ہیں اور ان کے بچے باہر پڑھتے ہیں۔
ادھیڑ عمر شخص یہ کہتا ہوا سڑک بلاک کرنے والے لوگوں کی جانب چلا گیا۔ میں جوں ہی وہاں سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جن راستوں سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا تو وہ دھیرے دھیرے دوبارہ بلاک ہو رہےہیں۔ خیر میں بلاآخر واپس گھر پہنچ گیا۔ گھر پہنچ کرانٹرنیٹ سروس نصیب ہوئی تو سوچا آپ کو اپنی آنکھوں دیکھا احوال بتا دوں۔