وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے انکشاف کیا ہے کہ 14 اگست کے موقع پر سیکیورٹی اداروں نے بلوچستان کو بڑی تباہی سے بچایا ہے۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بتایا کہ 14 اگست کو خودکش بمباروں نے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا تھا جو جشن آزادی منا رہے تھے۔ اس بہت بڑی تباہی سے بچانے پر سیکیورٹی ایجنسیز اور سی ٹی ڈی پولیس اور دیگر اداروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سی ٹی ڈی سمیت سیکیورٹی فورسز بلوچستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے یوم آزادی کے موقع پرتباہی کے منصوبے کو ناکام بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان توڑنے کی سازش کی جارہی ہے۔ بیانیہ چلایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے عوام محروم ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ بیانیہ اس طرح کا دیا جاتا ہے کہ ہماری انٹیل جنشیا کنفیوز ہوجاتی ہے۔ ہماری مین اسٹریم پارٹیوں میں کنفیوژن پیدا کی جاتی ہے۔ اور باہر کی دنیا میں بھی بلوچستان کی ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے کہ بلوچستان میں پسماندگی ہے۔ حالانکہ اس دہشتگردی کا پسماندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں طاقت کا استعمال ہوا ۔ بتائیں کہ کہاں ہوا؟ ملک توڑنے کی سازش میں شریک ٹھکوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ہم ریاست ہیں اور ہم ذمہ داری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں سے دور رہیں۔ اور والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔
دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں گرفتار بلوچستان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے لیکچرار، پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی کا اعترافی بیان سامنے آ گیا pic.twitter.com/9gMGcIG9Kv
— WE News (@WENewsPk) August 18, 2025
دہشتگردوں کے سہولت کار ڈاکٹر عثمان قاضی کا ویڈیو بیان
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس کے آغاز میں دہشتگردوں کے ایک سہولت کار پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی کا ویڈیو بیان دکھایا۔ جس میں ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ تربت کا رہائشی ہے۔ وہیں پلا بڑھا اور ملک کے اچھے اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ قائد اعظم یونیورسٹی سے ماسٹر اور پھر ایم فل کیا۔ پشاور یونیورسٹی سے اسکالرشپ کے ساتھ پی ایچ ڈی کی۔ کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی میں ملازمت کر رہا تھا۔ 18 گریڈ کا لیکچرر تھا۔ میری اہلیہ بھی سرکاری ملازم ہیں۔ جب میں پشاور یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو میں قائد اعظم یونیورسٹی کے وزٹ پر گیا تھا، وہاں 3 دوستوں کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ وہ تنظیم کے ساتھ منسلک تھے۔ بعد میں ان میں سے 2 مارے گئے۔ پھر ڈاکٹر ہیبتان عرف کالک نے مجھ سے رابطہ کیا۔ بعد میں مجھے بھی تنظیم میں شامل کیا گیا۔
دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ٹیلی گرام ایپ کا استعمال
پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی نے انکشاف کیا کہ اس کے بعد میری ملاقات بشیر زیب سے کروائی گئی۔ بشیر زیب سے میرا رابطہ ٹیلی گرام کے ذریعے ہوتا تھا۔ ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ دہشگردانہ کاررائیوں کے لیے ٹیلی گرام ایپلی کیشن کا استعمال کرتے تھے۔ تنظیم نے کوئٹہ میں مجھ سے 3 کاموں میں سہولت کاری لی تھی۔ تنظیم میں میرا نام امیرتھا۔ وہ مجھے اسی نام سے جانتے تھے۔ مجھے پہلا کام ایک ریجنل کمانڈر کے علاج اور تیمار داری کا دیا گیا تھا۔ اس کا نام شیر دل تھا۔ وہ ایک لڑائی میں زخمی ہوا تھا۔ میں نے اسے جگہ دی، بعد ازاں وہ صحت یاب ہوکر چلا گیا تھا۔ پھر گزشتہ سال نومبر میں نے رفیق بزنجو کو اپنے ہاں رہنے کو جگہ دی۔ وہ میرے پاس 2 دن رہا اور پھر میں نے اسے کسی اور کے حوالے کیا۔ اس سے اگلے دن وہ یہاں ریلوے اسٹیشن میں ایک خود کش کارروائی میں پھٹ گیا تھا۔
واضح رہے کہ نومبر 2024 مییں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملہ ریلوے اسٹیشن پر ہوا تھا، اس میں 32 جانیں ضائع ہوئی تھیں، 50 سے زائد لوگ زخمی ہوئے تھے۔ 10 سویلینز شہید ہوئے تھے، باقی سیکیورٹی فورسز کے جوان تھے۔
14 اگست کو تباہی پھیلانے کا منصوبہ
ملزم نے بتایا کہ حال ہی میں مجھے ایک ٹارگٹ ملا تھا۔ ایک شخص چند دن میرے پاس رہا۔ اس کے بعد میں نے اسے جمیل عرف نجیب کے حوالے کیا۔ تنظیم والے اسے 14 اگست کے کسی ایونٹ میں استعمال کرنے والے تھے۔
ڈاکٹر عثمان قاضی نے بتایا کہ یہ سارے کام میں نے کیے۔ اس کے علاوہ میں نے ایک پسٹل بھی لیا تھا۔ وہ میں نے ایک خاتون کے حوالے کیا۔ خاتون نے پسٹل آگے تنظیم کے اسکواڈ کو دیا۔ پھر وہ پسٹل سیکورٹی اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کو ٹارگٹ کرنے میں استعمال ہوا تھا۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ یہ سارے کام میں نے کیے، تنظیم کے ساتھ منسلک رہا ہوں۔ میں نے سہولت کاری کی ہے۔
ملزم نے اعتراف کیا کہ ریاست نے مجھے سب کچھ دیا۔ عزت اور وقار دیا۔ مجھے بھی نوکری دی اور میری اہلیہ کو بھی نوکری دی۔ اس کے باوجود میں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور ریاست کے ساتھ غداری کی ہے۔ میں اس پر تہہ دل سے شرمندہ ہوں۔ مجھے اس پر افسوس ہے۔ میرے اس ویڈیو بیان کو ریکارڈ کرانے کا مقصد نوجوان نسل سے کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی انتشار پھیلانے والی تنظیموں سے دور رہیں۔
وزیراعلیٰ نے انکشاف کیا کہ پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی خود کش بمبار کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر ریلوے اسٹیشن کے قریب چھوڑ کر آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عثمان قاضی کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ محرومی کے شکار ہیں۔ عثمان قاضی جیسے لوگ کیسے محرومی کے شکار ہیں۔ اندازہ کریں کہ اس کی والدہ پینشنر ہیں۔ ابھی تک پینشن لے رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ سرکاری ملازمہ تھیں۔ ان کی اہلیہ سرکاری ملازمہ ہیں۔ خود حکومت پاکستان کے اسکالر شپ پر پڑھا ہے۔ 18 گریڈ کا سرکاری ملازم ہے۔ بھائی ریکوڈک میں ملازم ہے۔ یہ کہاں سے محرومی کے شکار ہیں۔
اے پی سی میں پاکستان سے لڑنے والوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ گزشتہ روز بھی اسلام آباد میں منعقدہ ایک اے پی سی میں بلوچستان میں احساس محرومی کی کہانی سنائی گئی، یہ اس لڑائی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو پاکستان کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ ملزم عثمان قاضی نے جس خود کش بمبار کی بات کی، اسے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے جا کر دبوچ لیا۔ وہاں اہل محلہ نے مزاحمت کی۔ ہم نے ان سب کو گرفتار کیا اور وہ اب بھی گرفتار ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ایسے لوگوں سے دور رہیں۔ اگر وہ ان لوگوں کے قریب رہیں گے تو ان کے ساتھ سہولت کار کے طور پر نمٹا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ ڈاکٹر محمد عثمان قاضی کالعدم بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ گروہ تین، چار سطحوں پر کام کرتا ہے۔ اس کا سب سے نچلا گروہ عسکریت پسند ہے۔ وہ بے چارہ ان پڑھ ہوتا ہے۔ اس کو سوشل میڈیا اور دیگر کئی پروپیگنڈا ٹولز کے ذریعے بہکایا جاتا ہے۔ پھر اسے خود کش حملہ آور بناتے ہیں۔ اسے پہاڑوں پر لڑنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ان کے ماسٹرز کو پیسے ملتے ہیں۔ اگر وہ عسکریت پسند سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو اس کے لیےدشمن ایجنسیوں سے پیسے وصول کرتے ہیں۔ اور اگر وہ سیکیورٹی فورسز یا عام بلوچوں، پنجابیوں، ٹیچرز، ڈاکٹرز کو مارتا ہے تو اس کے بھی پیسے ملتے ہیں۔
ان کی دوسری سطح وہ ہے جو شہروں کے اندر موجود ہے۔ جیسا کہ ملزم نے بتایا۔ خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ خواتین ٹارگٹ کلنگ کرتی ہیں۔ پھر وہ اسلحہ واپس جمع کرایا جاتا تھا۔
ان کی تیسری سطح عثمان قاضی جیسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس ملزم کی گرفتاری سے پہلی مرتبہ سیکیورٹی فورسز کو اس قدر بڑی کامیابی ملی ہے کہ مجید بریگیڈ کی اس سطح کا لیڈر پکڑا گیا۔ اس کی مدد سے ہم بہت سے بندوں کو گرفتار کریں گے۔ ابھی انویسٹ گیشن چل رہی ہے۔ جیسے جیسے ہمیں مزید معلومات ملتی رہیں گی، ہم آپ سے شیئر کرتے رہیں گے۔
وزیراعلیٰ کے مزید انکشافات
وزیراعلٰی نے انکشاف کیا کہ ملزم عثمان قاضی نے پاکستان اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ اور پاکستان اسٹڈیز کا پروفیسر ہے۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بندہ بڑا محب وطن ہے۔ مطالعہ پاکستان کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن آپ اندازہ کریں کہ اس نے کتنے بچوں کو گمراہ کیا ہوگا۔ پھر اس کی اہلیہ بھی استاد ہے۔ جب یہ دہشتگردوں کو اپنے گھر میں لا کر علاج کراتا تھا تو ظاہر ہے کہ اس کی اہلیہ کو بھی یہ سب کچھ معلوم ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہی اے پی سی میں ایک قسم کے تشدد کو ’ دہشتگردی‘ قرار دیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں ہونے والے تشدد کو کوئی اور نام دیا جاتا ہے۔ ہم کب تک اس کنفیوژن کا شکار رہیں گے۔ ہمیں اپنے معاشرے کو اس کنفیوژن سے باہر نکالنا ہے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ جن لوگوں کے رشتہ دار اس قسم کی تنظیموں میں چلے جاتے ہیں، وہ نہ سیکیورٹی ایجنسیز کو اطلاع دیتے ہیں، نہ سیاسی قیادت کو خبر کرتے ہیں، نہ اطلاع دیتے ہیں قبائلی مشران، سرداران کو، اس کا مطلب ہے کہ پورا خاندان ملا ہوا ہے۔ دہشتگرد کیمپ سے چھٹی کرکے گھر بھی آتا ہوگا، چنانچہ ایسے رشتہ داروں کے ساتھ ہمارا سلوک مختلف ہوگا۔ وہ ہمیں اطلاع دیں گے بصورت دیگر پھر سہولت کار تصور کیے جائیں گے۔ ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ملزم عثمان قاضی کے حوالے سے ہماری انویسٹی گیشن بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔