بریگیڈیئر (ر) راشد ولی کا کہنا ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ جیسی تنظیموں کو ختم کرنا لازمی ہوچکا ہے کہ کیوں اب اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا۔
وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے برگیڈیئر راشد ولی نے کہا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایک مخلص اور باصلاحیت قیادت میسر ہے جن کی سوچ شفاف ہے اور مقاصد پرخلوص ہیں اور وہ کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی قیادت کو بین الاقوامی برادری میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پر امریکی پابندیاں، کیا اب دہشتگردوں کو حاصل بھارتی حمایت ختم ہو پائےگی؟
برگیڈیئر راشد ولی نے کہا کہ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے ذمہ دارانہ ردعمل دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مودی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہوں نے جنگ کو روکا اور ثالثی کا کردار ادا کیا لیکن صدر ٹرمپ نے اس دعوے کی تردید کی۔
بریگیڈیئر راشد ولی نے آر ایس ایس کے نظریے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت کا بیانیہ نفرت پر مبنی ہے: ’نفرت کرو، نفرت پھیلاؤ اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھاؤ‘۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ سوچ بھارت میں کچھ حد تک کامیاب ہو رہی ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر یہ قابل قبول نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے امریکا اور چین دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن امریکا سے تعلقات چین کی قیمت پر قائم نہیں کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے چین کو واضح کر دیا ہے کہ وہ ہمارا طویل المدتی شراکت دار ہے اور ہم دفاعی و اقتصادی میدان میں اس پر انحصار کرتے ہیں۔
بریگیڈیئر راشد ولی نے کہا کہ سی پیک ایک راہداری منصوبہ ہے جس کے ذریعے پاکستان کا رابطہ شمالی، وسطی اور مغربی ایشیا سے ہوگا۔ بھارت اس کنیکٹیویٹی سے خائف ہے اور اس نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوششیں کیں مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قانونی اور اخلاقی مؤقف مضبوط ہے۔ اگر بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ بھارت پہلے ہی سفارتی اور معاشی دباؤ کا شکار ہے لہٰذا ایسے میں اس کے لیے غیرقانونی اقدامات کا دفاع کرنا مشکل ہو گا۔
مزید پڑھیے: امریکا نے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو عالمی دہشتگرد تنظیمیں قرار دیدیا
آپریشن سندور کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے خود تسلیم کیا کہ وہ پاکستان کو براہ راست نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لیے اس نے بالواسطہ طریقے اپنانے شروع کیے۔ انہوں نے بلوچستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کئی دہائیوں سے اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں اور جب بیرونی قوتیں متحرک ہو جاتی ہیں تو مسائل مزید شدت اختیار کر لیتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ میڈیا، تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی کو مل کر ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ بیرونی سازشوں کے تحت قوم پرست عناصر کے غصے کو ریاست کی طرف نہیں موڑنا چاہیے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ بلوچستان میں مسائل موجود ہیں جنہیں صرف بہتر حکمرانی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اسمبلی ممبران کو ترقیاتی فنڈز اور نوکریاں تو دی جاتی ہیں لیکن ان میں شفافیت لانی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب نوکریاں میرٹ پر دینی ہوں گی اور فنڈز کا درست استعمال یقینی بنانا ہوگا۔
مزید پڑھیں: سوراب میں کالعدم تنظیم (بی ایل اے) کے دہشتگردوں کے بزدلانہ حملے، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شہید
انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک لیکچرر عثمان، جو یومِ آزادی پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، دہشتگردی میں ملوث پایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تربت جیسے علاقوں میں پڑھے لکھے نوجوان خودکش حملہ آور بن رہے ہیں جو باعث تشویش ہے اس لیے ہمیں اپنی اندرونی کمزوریوں پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔