خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں مشہور پیر بابا کی زیارت کے قریب برساتی نالے کے کنارے سیلاب میں جاں بحق ہونے والے 35 افراد کی اجتماعی نمازِ جنازہ ادا کی جا رہی تھی، جبکہ قریب ہی نالے میں نوجوانوں پر مشتمل ایک گروپ لاپتا افراد کی تلاش میں مصروف تھا۔
15 اگست کی صبح تقریباً 9 بجے بونیر کے مختلف علاقے اچانک سیلاب کی لپیٹ میں آگئے اور چند ہی منٹوں میں سینکڑوں گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے، ان ملبوں کے نیچے سینکڑوں افراد دب کر لاپتا ہو گئے اور مقامی آبادی پر قیامت ٹوٹ پڑی، پیر بابا کے علاقے میں داخل ہوتے ہی موبائل سگنل ختم ہو جاتے ہیں اور کسی قسم کا رابطہ ممکن نہیں رہتا۔ کس کا کیا حال ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔
پیر بابا بازار کی صورتحال
مرکزی علاقے پیر بابا بازار میں داخل ہوتے ہی سیلاب کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے، بازار میں جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن مالی نقصان بہت زیادہ ہوا ہے، کوئی ایک دکان بھی ایسی نہیں جس میں سیلابی پانی، مٹی اور ریت جمع نہ ہوئی ہو۔
دکانوں کے اندر موجود سامان مکمل طور پر پانی اور مٹی میں دب گیا جبکہ کئی فٹ مٹی جمع ہو گئی ہے، دکاندار اپنی مدد آپ کے تحت ملبہ نکالنے میں مصروف تھے، مرکزی سڑک پر کیچڑ اور سیلابی پانی جمع ہونے سے ٹریفک معطل تھی اور بھاری مشینری کی مدد سے سڑک کو کلیئر کرنے کا عمل جاری تھا۔
اجتماعی جنازے اور لاپتا افراد کی تلاش
پیر بابا بازار سے آگے بڑھنے پر برساتی نالے کے کنارے جنازوں کی تیاری جاری تھی اور مقامی لوگ بڑی تعداد میں جمع تھے، گاڑیوں کے ذریعے اسپتال سے میتیں لائی جا رہی تھیں، جب 35 جنازے پہنچائے گئے تو چند خواتین آخری دیدار کے لیے آئیں، جس پر ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی، رشتہ دار اپنے پیاروں کا چہرہ دیکھنے کے بعد انہیں واپس لے گئے۔
مقامی امام کی جانب سے زندگی اور موت پر مختصر خطاب کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی گئی، اسی دوران چند میٹر کے فاصلے پر ایک گروپ ابھی تک لاپتا افراد کی تلاش میں مصروف تھا۔
نمازِ جنازہ کے بعد مقامی رہنما نے اعلان کیا کہ اب بھی بڑی تعداد میں لوگ لاپتا ہیں اورخدشہ ہے کہ وہ اسی نالے کے ملبے تلے دبے ہیں، اس لیے جب تک آخری لاش برآمد نہیں ہوتی، تلاش کا عمل جاری رہے گا۔
جنازے میں شریک عالم خان نے بتایا کہ زیادہ ترلاشیں اسی نالے سے نکالی گئی ہیں، جہاں طوفانی بارشوں کے باعث آنے والا سیلاب انہیں بہا لے گیا تھا۔
اسی دوران دگئی گاؤں کے رہائشی مختیارخان سے ملاقات ہوئی، جن کے خاندان کے 22 افراد سیلاب کی نذر ہوئے، انہوں نے بتایا کہ وہ بدستور تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسے ہی لاش ملتی ہے، جنازہ ادا کرکے تدفین کرتے ہیں اور پھر باقی لاپتا افراد کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔
مختیار خان کے مطابق ان کے گاؤں کے بیشتر گھر سیلاب میں بہہ گئے یا پھرملبے کا ڈھیربن گئے، ان کا نہ گھر بچا اور نہ ہی گھر والے۔
جگہ جگہ ملبہ اور مردہ جانور
پیر بابا کے برساتی نالے میں پانی کی سطح میں خاصی کمی آ گئی تھی، لیکن ہر طرف ملبے کے ڈھیر موجود تھے جن میں لوگ لاشیں تلاش کر رہے تھے، کئی مقامات پر بھاری کرینوں کے ذریعے بھی تلاش کا عمل جاری تھا۔
سیلاب میں بہہ کر مرنے والے جنگلی اور پالتو جانور کی لاشیں بھی جگہ جگہ نظر آ رہی تھیں، مقامی افراد کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی کو اپنے مالی نقصان کا ہوش نہیں، سب کی کوشش صرف یہ ہے کہ ملبے سے لاشوں کو جلد از جلد نکالا جائے-
مکانات ملبے کا ڈھیر
پیر بابا سے آگے سڑک مکمل طور پر بند تھی، دگئی گاؤں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، درجنوں گھر ایسے تھے جن کا کوئی وجود باقی نہیں رہا اور دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہاں کبھی گھر بھی تھے۔
مقامی افراد نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں 2 اور 3 منزلہ گھر تھے، جن میں کئی خاندان رہتے تھے، لیکن وہ بے رحم سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔
پیر بابا سے ایک گھنٹہ 15 منٹ پیدل سفر کے بعد بیشئنی گاؤں پہنچے تو وہاں بھی بہت زیادہ تباہی نظر آئی، یہ گاؤں ایک چھوٹے نالے کے دونوں اطراف آباد تھا، جو اب کھنڈر میں بدل چکا ہے۔
نالے کے قریب کی آبادی مکمل طور پر متاثر ہوئی۔ بڑے بڑے پتھروں کے باعث سڑک بند تھی اور مشینری کی مدد سے اسے کھولنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ مقامی لوگ اور رضاکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
وہاں سبحان نامی ایک مقامی استاد سے ملاقات ہوئی، جو سیلاب کے وقت اپنے گھر میں موجود تھے، انہوں نے بتایا کہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ گھروں سے نکلنے کا وقت بھی نہیں ملا۔ گاؤں کے زیادہ تر گھروں کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور ان کی جگہ بڑے بڑے پتھر ہیں۔ کچھ گھروں کا ملبہ اور گھریلو سامان، مثلاً سولر پینل وغیرہ بکھرے پڑے ہیں۔
سبحان نے بتایا کہ بعض گھر 3 منزلہ تھے جن میں کئی خاندان رہتے تھے، ایک ہی خاندان کے 17 افراد جاں بحق ہوئے اور ان کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جبکہ درجنوں ابھی تک لاپتا ہیں۔
ان کے مطابق گاؤں میں سرکاری سطح پر ریسکیو کا کوئی عمل نظر نہیں آیا، تاہم فلاحی اداروں کے رضاکار اور مردان، صوابی سمیت دیگر علاقوں سے نوجوان امداد کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔
پینے کا پانی ناپید
سیلاب کے باعث بونیر میں نظام زندگی درہم برہم ہو گیا تھا اور سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کا تھا۔ پیر بابا میں بھی پینے کے پانی کی شدید قلت تھی، مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے پانی پہنچایا جا رہا تھا لیکن راستے بند ہونے سے مشکلات درپیش تھیں۔
متاثرین کے پاس کپڑے، کھانا اور دیگر ضروری اشیا نہیں تھیں، مگر ان سب کی فکر صرف ایک تھی کہ کسی طرح اپنے لاپتا پیاروں کو تلاش کرلیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ لاشیں ملبے میں چھوڑ کر بیٹھ نہیں سکتے۔
موبائل فون سروس ندارد
بونیر میں موبائل سگنلز کا بڑا مسئلہ تھا، کوئی بھی نیٹ ورک کام نہیں کر رہا تھا اور مکمل طور پر رابطہ منقطع تھا، اس بارے میں وہاں کے منتخب رکنِ اسمبلی ریاض خان نے بتایا کہ زیادہ تر موبائل ٹاور پہاڑوں پر لگے ہیں، جہاں بجلی کی سہولت موجود نہیں۔ راستے بند ہونے سے ڈیزل کی سپلائی بھی معطل ہے، جس کے باعث ٹاورز بند پڑے ہیں۔
متاثرین کے لیے حکومتی سرگرمیاں
خیبر پختونخوا کے شمالی اضلاع میں بارشوں اور سیلاب کے بعد آٹھ اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بونیر اور دیگر اضلاع کا دورہ کیا اور امدادی رقم بڑھا کر 20 لاکھ روپے فی جاں بحق فرد کر دی، انہوں نے متاثرین سے وعدہ کیا کہ ان کی حکومت کسی اور کی مدد کے بغیر بھی متاثرین کی مکمل بحالی کرے گی۔
سیلاب سے نقصانات کی تفصیل
پی ڈی ایم اے خیبر پختونخوا کی رپورٹ کے مطابق بونیر، دیر، باجوڑ، بٹگرام، کوہستان، سوات، شانگلہ، مانسہرہ اور صوابی میں سیلاب کے باعث شدید نقصانات ہوئے، صوبے میں بارشوں اور فلیش فلڈ کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 341 افراد جاں بحق اور 178 زخمی ہو چکے ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق جاں بحق افراد میں 292 مرد، 28 خواتین اور 21 بچے شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں 144 مرد، 24 خواتین اور 10 بچے شامل ہیں، مجموعی طور پر 420 گھروں کو نقصان پہنچا، جن میں 281 جزوی طور پر اور 139 مکمل طور پر منہدم ہوئے۔
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر ہے، جہاں اب تک 222 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ ضلع صوابی میں 11 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے ہیں۔