سیف سٹی کیمرے، سانحہ 9مئی اور صحافی

بدھ 20 اگست 2025
author image

کامران ساقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاہور: 9 مئی 2023 کو پاکستان کی سیاسی کشمکش کے دوران میڈیا کی حفاظت ایک نئے امتحان سے گزری۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں نے ریاستی ردِعمل کو متحرک کیا، جس کی زد میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ میڈیا ورکرز بھی آئے۔

اس روز کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو نہ صرف جسمانی خطرات کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ بعد ازاں متعدد صحافیوں کو ایف آئی آرز، گرفتاریوں اور قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک ایسا رجحان جس پر صحافتی تنظیمیں مسلسل تحفظات کا اظہار کرتی آئی ہیں

پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کی گرفتاریوں، چھاپوں اور ہراسانی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری اور 9 مئی 2023کو ہونے والے احتجاج کے بعد متعدد صحافیوں کو حراست میں لیا گیا، ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کو اس معاملے سے نظریں چرانے کے بجائے ان الزامات کا جواب دینا چاہیے۔

9 مئی 2023 کو پاکستان تحریک انصاف کور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے قانون کے تحت میڈیا کی آزادی اور تحفظ یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان پریس فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 9 مئی کو پیش آنے والے اہم واقعات میں ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت پر حملہ، ڈی ایس این جی وینز پر حملے، مختلف شہروں میں میں صحافیوں سے بدسلوکی، تشدد، اغوا اور جبری گمشدگی کے کیسز، صحافیوں پر مقدمات کا اندراج، انٹرنیٹ اور میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں۔

پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2023 کے تحت دی گئی، درخواست کے جواب میں ایڈیشنل آئی جی پولیس، انویسٹیگیشن برانچ پنجاب نے بتایا کہ 9 مئی سانحہ سے متعلق پنجاب بھر سے ڈیٹا جمع کیا گیا ہے۔

جس کے مطابق صحافیوں کے خلاف 9 مئی کے حوالے سے صرف 2 مقدمات درج کیے گئے، جو ضلع ننکانہ صاحب کی حدود میں موجود تھانہ بڑا گھر میں درج ہوئے۔

تھانہ بڑا گھر ضلع ننکانہ صاحب میں پہلا مقدمہ نمبر 23/290 میں نجی ٹی وی چینلز کے لئے کام کرنے والے 3 مقامی صحافیوں، عمر فاروق، فیصل اعجاز اور محمد سلیم کو نامزد کیا گیا ہے۔

اس مقدمہ میں ملزمان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے ہیں، جن میں عوامی پریشانی پیدا کرنے، غیر قانونی اجتماع، فساد برپا کرنے، سرکاری احکامات کی خلاف ورزی، جائیداد کو نقصان پہنچانے اور سنگین دھمکیاں دینے جیسے الزامات شامل ہیں۔

درج کی گئی ایف آئی آر میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 290، 291، 147، 149، 188، 440 اور 506(ii) شامل کی گئی ہیں، جن کے تحت ملزمان پر الزام ہے،کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر اجتماع کر کے ہنگامہ آرائی کی، عوامی مقامات پر رکاوٹ پیدا کی، سرکاری احکامات کی نافرمانی کی، املاک کو نقصان پہنچایا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔

دوسری ایف آئی آر بھی تھانہ بڑا گھر ضلع ننکانہ صاحب میں درج ہوئی، جس کا نمبر 242/23 ہے، جس میں نجی ٹی وی کے رپورٹر صحافی عامر اقبال نامزد ہیں۔

اس ایف آئی آر میں ملزمان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 290، 291، 147، 149 اور 188 کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں عوامی پریشانی پیدا کرنے، مستقل بدامنی برقرار رکھنے، غیر قانونی اجتماع کرنے، فساد برپا کرنے اور سرکاری احکامات کی خلاف ورزی جیسے الزامات شامل ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق، ملزمان نے غیر قانونی طور پر اکٹھے ہو کر ہنگامہ آرائی کی، عوامی مقامات پر رکاوٹیں پیدا کیں اور حکومتی احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے نقصِ امن کا باعث بنے۔

ننکانہ صاحب کے پہلا مقدمہ نمبر 23/290 میں نامزد مقامی صحافیوں عمر فاروق اور فیصل اعجازسے تفصیلی گفتگو کی گئی تاکہ درست معلومات حاصل کی جاسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان پر پولیس کی جان سے جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور تقریبا 2 سال بعد عدالت نے کچھ روز قبل اس بے بنیاد کیس کو ختم کردیا ہے، کیونکہ ایف آئی آر میں ذکر کردہ واقعہ میں وہ موجود ہی نہیں تھے، بلکہ کسی اور مقام پر رپورٹنگ کر رہے تھے۔

دوسری ایف آئی آر کے بارے میں ہیں معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت دی گئی درخواست کے جواب میں غلط معلومات فراہم کی گئی تھیں۔

یہ ایف آئی آر ایک موٹرسائیکل چوری کے الزام میں درج ہوئی ہے اور عامر اقبال کے خلاف نہیں ہے۔ جب ہم نے مقامی صحافی عامر اقبال سے اس کیس کے حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان پر مقدمہ 9 مئی کے حوالے سے ضرورت درج ہے، مگر وہ اس مقدمہ نمبر کے تحت نہیں، جس کا ذکر ایڈیشنل آئی جی پولیس، انویسٹیگیشن برانچ پنجاب سےملنے والی معلومات میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بھی جون 2024 میں  اس کیس سے بری ہو گئے ہیں، اور انہوں نے عدالت میں سیف سٹی کے کیمرے کی فوٹیج پیش کی تھی جس سے ان کی بے گناہی ثابت ہوئی۔ کیونکہ ایسا کوئی واقع پیش آیا ہی نہیں تھا۔ عدالت سے اس کیس کا فیصلہ 9 جولائی 2024 کو جاری کیا گیا۔

سینئر صحافی اور 9 مئی واقع کے وقت لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری نے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے بعد ہمارے تقریباً 250 کے قریب میڈیا ورکرز، جن میں رپورٹرز اور کیمرہ مین شامل تھے، اس وقت موقع پر موجود تھے۔

پولیس نے جیو فینسنگ کے ذریعے تمام موجود افراد کے موبائل نمبرز ٹریس کیے، جس کے بعد ان کے گھروں پر چھاپے مارے جانے لگے۔ جی این این کے رپورٹر سرفراز خان کے گھر بھی چھاپہ مارا گیا۔

 انکا مزید کہنا ہے کہ بطور صدر پریس کلب میں نے وزیراعلیٰ محسن نقوی سے رابطہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ میڈیا ورکرز کو ہراساں کرنے کا یہ سلسلہ روکا جائے، مگر حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدام نہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے لاہور پریس کلب میں کئی بار احتجاج بھی کیا، لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ بالآخر میں نے خود لاہور ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ پٹیشن کے بعد مجھے حکومتی ذرائع سے پیغام ملا کہ وزیراعلیٰ نے ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ میں نے عدالت سے رجوع کیوں کیا۔

اعظم چوہدری نے کہا کہ میں نے واضح کیا کہ متعدد بار حکومت سے رابطہ کرنے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی، حتیٰ کہ اطلاعات کے وزیر عامر میر سے بھی رابطے میں رہا، مگر پولیس نے ہراساں کرنے کا عمل بند نہ کیا۔

سینئر صحافی اعظم چوہدری نے مزید کہا اگرچہ حکومت نے میری درخواست پر دو تین افراد کو تھانوں سے رہا بھی کروایا، مگر مجموعی صورتحال بدستور خراب رہی۔

بعد ازاں عدالت نے ہدایت دی کہ صحافیوں کو ہراساں نہ کیا جائے، جس کے بعد حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں ہم نے اپنے نمائندے شامل کیے، تاکہ 9 مئی کے واقعے میں ڈیوٹی پر موجود میڈیا ورکرز کو تحفظ دیا جا سکے۔

ایسے میڈیا ورکرز جن کی ملازمتیں ختم ہوگئی تھیں اور یوٹیوب پر کام کررہے تھے، انہیں صرف اس لیے ہراساں کیا گیا کہ وہ 9 مئی کے واقعات پر تنقیدی رائے دے رہے تھے۔

ایک صحافی عبداللہ کے خلاف بھی اسی تناظر میں مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا گیا۔ طویل حراست کے بعد وہ رہا تو ہو گئے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا، جو ایک مشکوک واقعہ ہے۔ اسی طرح دیگر بہت سے صحافی دوستوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔

اگر مستقبل میں کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے اور مجھ پر بطور صدر یا کسی بھی حیثیت میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو میں بھرپور مزاحمت کروں گا۔ میں کسی بھی غیر آئینی، غیر قانونی یا غیر جمہوری اقدام کا کبھی بھی ساتھ نہیں دے سکتا۔

بدقسمتی سے اس وقت صحافتی تنظیمیں، کلبز اور لیڈرز کمپرومائز دکھائی دیتے ہیں۔ صحافیوں کے خلاف مقدمات، گرفتاریوں اور کارروائیوں پر وہ آواز نہیں اٹھا رہے جو ان کی ذمہ داری ہے۔

اگر آج بھی مجھ پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، تو میں وہی مزاحمتی کردار ادا کروں گا جو ماضی میں کیا۔ عمران خان اور عثمان بزدار کی حکومت کے دوران جب میڈیا پر دباؤ آیا، تو میں نے بطور صدر لاہور پریس کلب 28 احتجاج کیے۔

بعد ازاں پی ڈی ایم حکومت میں جب ارشد شریف کا قتل ہوا، عمران ریاض کو گرفتار کیا گیا اور نو مئی کے واقعات پیش آئے، تب بھی میں نے بلاخوف آواز بلند کی۔

اس مزاحمت کی مجھے بھاری قیمت بھی چکانی پڑی۔ مجھے پی ٹی وی کی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا، دیگر میڈیا اداروں کو میرے خلاف ہدایات دی گئیں کہ مجھے ملازمت نہ دی جائے، اور میرے خلاف کئی حربے استعمال کیے گئے۔ لیکن میں اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کروں گا۔

گزشتہ سال کے اختتام پر بھی تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد میں کوریج کے لیے موجود  صحافیوں کو دارالحکومت کی پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس دوران صحافی مطیع اللہ جان سمیت متعدد صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور مقدمات بھی درج کئے گئے۔

ایف آئی آرکے مطابق سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی گاڑی کو ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی کی ٹکر سے ڈیوٹی پر مامور کانسٹیبل زخمی ہوا، متن میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم نشے کی حالت میں تھا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے 9 مئی کے واقعات کے بعد صحافیوں کی گرفتاریوں، تشدد اور ہراسانی کے خلاف شدید احتجاج کیا۔

یونین کے صدر رانا عظیم نے خصوصی گفتگو میں کہا کہ صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی سے روکنا اور ان پر طاقت کا استعمال کرنا آزادی صحافت پر کھلا حملہ ہے۔

رانا عظیم نے بتایا کہ نو مئی کے دن مجموعی طور پر 23 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ پی ایف یو جے نے فوری طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب اور دیگر اعلیٰ حکام سے رابطہ کر کے صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، جس کے نتیجے میں ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کی مداخلت سے گرفتار رپورٹرز، کیمرہ مینوں اور دیگر میڈیا کارکنان کی رہائی ممکن ہو سکی۔

رانا عظیم نے خبردار کیا کہ 9 مئی کے بعد سے صحافیوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق، اب تقریباً ہر احتجاج یا سیاسی ہلچل میں صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں گرفتار کیا جاتا ہے اور بعض اوقات شدید جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ میڈیا پر دباؤ کی پالیسی ترک کریں اور صحافیوں کو ان کے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کی مکمل آزادی دی جائے۔

پیکا ایکٹ اور صحافیوں کا مستقبل

پاکستان میں صحافت پہلے بھی آسان نہ تھی ایسے میں پیکا ایکٹ کا منظور ہونا آزادی اظہار رائے کے لئے کام کرنے والے افراد کے نذدیک ایک لٹکتی تلوار ہے۔

رانا عظیم نے کہا کہ پیکا ایکٹ جیسے قوانین اب صحافیوں کے لیے ایک خوف ناک ہتھیار بن چکے ہیں، جسے کبھی بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال حکومت اور میڈیا کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کی عکاسی کرتی ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے وفاقی دارالحکومت میں پاکستان تحریک انصاف کے 26 نومبر 2024 کے احتجاج کی کوریج کرنے والے درجنوں صحافیوں اور وی لاگرز کے خلاف مقدمات درج کئے۔

ہرمیت سنگھ اور الیاس اعوان کو گرفتارکیا  گیا۔  پیکا ایکٹ کے تحت درج کئے گئے مقدمات میں نامزد ملزمان پر ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹا بیانیہ بنا کر پھیلانے اور لوگوں کو اکسانے کے الزامات عائد کئے گئے۔

9 مئی کے سانحہ نے پاکستان میں صحافت کی آزادی، صحافیوں کے تحفظ، اور ریاستی اداروں کے کردار پر کئی سنگین سوالات کھڑے کر دیے۔ سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج کی بنیاد پر صحافیوں کی رہائی یہ ثابت کرتی ہے کہ اکثر الزامات محض شبہات پر مبنی تھے، اور ان کی آزاد رپورٹنگ کو جرم بنا دیا گیا۔

اطلاعات تک رسائی کے قوانین اور عدالتی فیصلے اگرچہ صحافیوں کے لیے ایک امید کی کرن بنے، لیکن صحافیوں کو درپیش خطرات کی شدت کم نہ ہو سکی۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور دیگر صحافتی اداروں کی مسلسل آوازیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ موجودہ ماحول میں میڈیا آزادانہ کام نہیں کر پا رہا۔ چاہے وہ جسمانی حملے ہوں، قانونی مقدمات، اغوا، یا ڈیجیٹل سنسرشپ — تمام حربے صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

پیکا ایکٹ جیسے قوانین اور سوشل میڈیا پر ریاستی نگرانی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے آزادی اظہار کو مزید محدود کر دیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف صحافت کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی بلکہ جمہوری معاشرے کا بنیادی ستون بھی متزلزل ہو جائے گا۔

لہٰذا، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، عدلیہ، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں، آزادی اظہار کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کریں، اور میڈیا کے خلاف طاقت کے استعمال کو فوری بند کریں۔

صرف اسی صورت میں پاکستان ایک آزاد، شفاف اور ذمہ دار صحافتی نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے — جو جمہوریت کی بنیاد اور عوام کی آواز ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم خشک، پہاڑی علاقوں میں شدید سردی کا امکان

سعودی عرب 2034 میں ’سب سے دلچسپ ورلڈ کپ‘ منعقد کرنے کے لیے پرعزم

جی-7 ممالک کا روس پر دباؤ بڑھانے اور ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی حمایت کا اعلان

موٹروے ایم-5 پر غنودگی کے دوران بس ڈرائیور پکڑا گیا، موٹروے پولیس کی بروقت کارروائی

ٹرمپ کی H-1B ویزا حمایت پر اپنی ہی جماعت میں مخالفت کی لہر

ویڈیو

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ