امریکا میں بجلی کی قیمتیں مہنگائی کی شرح سے دوگنی رفتار سے بڑھ رہی ہیں جس پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہوا اور شمسی توانائی جیسے قابلِ تجدید ذرائع کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں ’صدی کا سب سے بڑا فراڈ‘ قرار دیا ہے، انہوں نے اعلان کیا کہ وہ نہ پون چکی کے منصوبے منظور کریں گے اور نہ ہی کسان برباد کرنے والے سولر منصوبے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا بڑا قدم: امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکس کٹ، اخراجاتی کمی اور سرحدی سیکیورٹی منصوبہ قانون بن گیا
ماہرینِ توانائی کا کہنا ہے کہ موجودہ قیمتوں میں اضافے کی اصل وجوہات بڑھتی طلب، پرانا انفرااسٹرکچر اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسم ہیں، نہ کہ قابلِ تجدید توانائی۔ کلاؤڈ کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز اور برقی گاڑیوں کے بڑھتے استعمال نے توانائی کی کھپت میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
قدرتی گیس کی عالمی مانگ اور برآمدات میں اضافے کے باعث بھی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، جب کہ امریکا میں بجلی کی 40 فیصد سے زیادہ پیداوار گیس پر انحصار کرتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں امریکیوں کے بجلی بل 50 فیصد کم کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ ان کی پالیسیوں نے صورتحال مزید خراب کر دی ہے، توانائی کے ماہرین اور ڈیموکریٹ سینیٹر مارٹن ہینرچ نے خبردار کیا کہ ریپبلکنز کی نئی ٹیکس پالیسی سے روزگار کے ہزاروں مواقع ختم ہوں گے اور گھریلو صارفین کے بل مزید بڑھیں گے۔
مزید پڑھیں:ٹرمپ کا نیا انتخابی منصوبہ، میل اِن بیلٹ اور ووٹنگ مشین ختم کرنے کا اعلان
قابلِ تجدید توانائی کے حامیوں کے مطابق اصل حقیقت یہ ہے کہ توانائی کی طلب پوری کرنے کے لیے سولر اور ونڈ ہی سب سے تیز اور سستے ذرائع ہیں، 2024 میں امریکا میں نئی بجلی کی پیداوار کا 90 فیصد حصہ صاف توانائی سے آیا۔ وہ ریاستیں جو سب سے زیادہ صاف توانائی استعمال کر رہی ہیں وہاں بجلی کی قیمتیں کم ہوئیں، جبکہ فوسل فیول پر انحصار کرنے والی ریاستوں میں قیمتیں بڑھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی فوسل فیول پر زور دینے والی پالیسیاں نہ صرف ماحول بلکہ معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں، اور ان کے باعث امریکا صاف توانائی کے شعبے میں دوسرے ممالک سے پیچھے رہ جائے گا۔