سعودی عرب کے ولی عہد و وزیرِاعظم امیر محمد بن سلمان کا شمار جہاں دنیا کی طاقتور ترین شخصیات میں ہوتا ہے وہیں وہ عالمِ اسلام کی امید اور نوجوانانِ ملت اسلامیہ کے آئیڈیل اور ہیرو بھی ہیں اور انہیں عالمِ اسلام کی عظیم مملکت سعودی عرب کا ولی عہد بنے 6 سال مکمل ہوچکے ہیں۔
اس عرصے کے دوران انہوں نے سعودی معاشرے میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات کیں، اسے بدلنے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے پوری جانفشانی اور لگن سے میدانِ عمل میں رہے اور ہیں۔
ان کا 6 سالہ دور سعودی عرب کی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے سنہری دور تصور کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کا ولی عہد ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے، بلاشبہ یہ ایک اعزاز بھی ہے اور بھاری ذمہ داری بھی۔
امیر محمد بن سلمان نے اپنے 6 سالہ دور میں سعودی عرب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں، وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں حق ادا کردیا۔
امیر محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو تیز رفتار ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے ویژن 2030 متعارف کرایا اور حقیقت میں یہ پروگرام ان کا خواب ہے جس کی تعبیر پر اس وقت تیزی سے کام ہورہا ہے۔
ویژن 2030 کی باقاعدہ منظوری سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیرِ صدارت کابینہ کے اجلاس میں دی گئی تھی اور سعودی کابینہ نے معیشت کی بہتری کے لیے تیل کے بجائے متبادل منصوبوں کے اس جامع پلان کی منظوری دی تھی۔
ویژن 2030 نے دنیا میں سعودی عرب کے تصور کو بدل کر رکھ دیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور کاروباری برادری میں جس طرح اس پروگرام کو پذیرائی ملی وہ دیدنی ہے۔ مستقبل قریب میں یہ ویژن سعودی برینڈنگ کا سبب بنے گا۔
ویژن 2030 کا ایک بڑا مقصد فرد کو اجتماع کا حصہ بننے کا موقع مہیا کرنا بھی ہے تاکہ سعودی شہری ایک قوم کے طور پر دنیا میں آگے بڑھ سکیں۔ ویژن 2030 نے مہمان نوازی، سیاحت اور کھیلوں سمیت تمام شعبوں میں تعلیم و تربیت اور ملازمتوں کے موقع پیدا کیے ہیں اور ان شعبوں میں لاکھوں ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ جس سے افراد اور ان کے خاندانوں کی ترقی میں مدد ملی۔
5 سال پہلے کوئی نوجوان بھی ملازمت چھوڑ کر سرکاری ماحول سے باہر نکل کر انٹرپرنیورشپ کی طرف نہیں جانا چاہتا تھا لیکن آج لگ بھگ 60 فیصد نوجوان کاروباری سرگرمیوں کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی انقلابی تبدیلی ہے، جس کا سہرا محمد بن سلمان کو جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ محمد بن سلمان کا ویژن 2030 ایک جامع ویژن، ایک مربوط لائحہ عمل اور نئے غیر روایتی نظریات کا حامل ہے جس کے ذریعے سعودی عرب ترقی اور تعمیر کے عمل کی جانب بڑھا اور یہ ویژن مملکت سعودی عرب کے لیے نشاۃ ثانیہ ثابت ہورہا ہے۔
سعودی عرب روئے زمین پر بسنے والے ہر مسلمان کے لیے محترم و معزز ہے بلکہ یوں کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ سعودی عرب دنیا کے ہر مسلمان کا دوسرا گھر ہے کیونکہ 2 مقدس ترین مقامات بیت اللہ اور مسجد نبوی مملکت سعودی عرب میں ہی موجود ہیں اور سال کے 12 مہینے دنیا کے کونے کونے سے مسلمان حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب آنے والے عازمین کے لیے جو بہترین سہولیات فراہم کی جارہی ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔ عمرہ و حج کے لیے جانے والے عازمین ایسی سہولیات دیکھ کر سعودی عرب اور سعودی قیادت کے لیے خصوصی دعائیں کرتے ہیں۔
سعودی عرب کو گزشتہ 6 برسوں میں علاقائی و موسمیاتی چیلنجز کا بھرپور سامنا رہا لیکن ہر محاذ پر محمد بن سلمان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت مملکت ہر بحران سے سرخرو ہوکر نکلی۔
کورونا جیسی عالمی وبا نے بڑی بڑی معیشتوں کو زمین پر لاکھڑا کیا اور سعودی عرب کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان ہوا لیکن شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے ناصرف اپنے شہریوں کو اس عالمگیر وبا سے بچایا بلکہ معاشی نقصان کے پیش نظر بجٹ اخراجات میں بھی کمی لاکر معیشت کو سہارا دیا۔
سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان نے معیشت میں خلل کا باعث بننے والے خطرناک موسمی اتار چڑھاؤ، بڑے ماحولیاتی خطرات اور ان جیسے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ اپنی دانشمندی، قوتِ ارادی، اچھے انتظام اور تجربے سے کیا اور کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں، بلند قوت ارادی اور ہنگامی پیشرفت سے ہر ناممکن کو ممکن بناکر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ انہی کی پالیسیوں اور حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے کہ آج خطے کی بدامنی، امن میں بدل گئی ہے، جو کل تک دشمن تھے وہ آج دوست بن گئے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سعودی عرب کو یمن اور شام جنگ سے کس قدر نقصان پہنچایا گیا۔
سعودی ولی عہد جہاں ترقی کے خواہاں ہیں وہاں امن کے بھی متلاشی ہیں۔ کوئی بھی ملک یا خطہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہاں امن قائم نہیں ہوتا، سلگتا ہوا مشرق وسطی خطے کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ محمد بن سلمان نے قیامِ امن کے لیے رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دیا، سلامتی، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے حامی بن کر کھڑے ہوئے۔
جو عناصر خطے اور دنیا کی سلامتی اور استحکام سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں، ان کا سامنا آسان کام نہیں، ولی عہد کو اس چیلنج کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہوں نے انتہا پسندوں کی کمر توڑ دی، ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کیا۔ گمراہ اور منحرف نظریات کے حامل، دہشتگردی کی حمایت کے ذرائع کا پردہ فاش کیا اور جو لوگ ایسے گروہوں کی مالی معاونت اور سہولت کاری کرتے تھے ان کا مقابلہ کیا اور ان کی بیخ کنی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
انہی اقدامات کی بدولت محمد بن سلمان پوری دنیا میں امن کے پیامبر بن کر سامنے آئے۔ مشرق وسطیٰ اور دنیا کے اندر کئی دہائیوں سے جاری تنازعات کو ختم کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ سعودی-چین تعلقات کے معمار ہیں۔ ان کی بدولت ہی ایران-سعودی عرب معاہدہ ہوا جس میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ ہوا، سیکیورٹی اور دیگر معاہدوں کو فعال کیا گیا۔
شام کو امن کی جانب لایا گیا اور شامی پناہ گزینوں کی واپسی کی راہ ہموار کی گئی۔ یمن کے ساتھ تنازع کا خاتمہ ہوا۔ یوکرین اور روس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے ثالثی کا سہرا بھی محمد بن سلمان کے سر سجتا ہے۔ ترکی اور قطر کے ساتھ تعلقات کو نارملائزیشن کی جانب لائے۔ مسئلہ فلسطین میں سعودی عرب نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا اور ان کی ہر ممکن مدد کی۔
پاکستان میں بدترین سیلاب آیا تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور محمد سلمان کی خصوصی ہدایت پر پاکستان اور مصیبت زدہ پاکستانیوں کی بھرپور مدد کی گئی۔ پاکستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے سعودی عرب نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ المختصر ولی عہد امیر محمد بن سلمان کی جرأت مندانہ اور دانشمندانہ قیادت میں ایک نیا سعودی عرب جنم لے رہا ہے اور ان کے ویژن پر دن رات کام جاری ہے۔
سعودی عرب میں ہونے والی اصلاحات اور تبدیلیاں صرف سعودی عرب کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے استحکام اور ترقی کا باعث بنیں گی جس کا تمام تر کریڈٹ سعودی عرب کے وفادار، بہادر، فیاض، جرأت مند، دُور اندیش، تجربہ کار، ذہین ولی عہد و وزیرِاعظم امیر محمد بن سلمان کو جاتا ہے۔