کوئٹہ: تعلیم کا دامن چھوڑنے والے بچے اسکولوں کو کیسے لوٹے

ہفتہ 23 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان جو رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، بے پناہ مسائل کی زد میں ہے لیکن ان مسائل میں سب سے سنگین مسئلہ شرحِ خواندگی ہے۔ صوبے میں شرحِ خواندگی صرف 42 فیصد ہے جبکہ خواتین کی خواندگی محض 33 فیصد ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 29 لاکھ 40 ہزار بچے، جن کی عمر 5 سے 16 سال کے درمیان ہے، اسکول سے باہر ہیں۔ اسکولوں میں بنیادی سہولیات اور تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کے باعث تعلیمی معیار بھی تشویشناک ہے۔

حکومتِ بلوچستان نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتے ہوئے بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان 2020-25 کے تحت اصلاحات کا آغاز کیا، جس کے تحت انفراسٹرکچر کی بہتری، اساتذہ کی تربیت اور اسکول مانیٹرنگ کے نظام کو مضبوط بنایا جا رہا ہے تاکہ صوبے میں معیارِ تعلیم بہتر بنایا جا سکے۔

اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تعلیمی معاونتی پروگرام ای ایس پی ہے، جو محکمہ تعلیم (اسکولز) کے تحت یونیسف کے تکنیکی و مالی تعاون سے 22 اضلاع میں جاری ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی جزو ایکسلریٹڈ لرننگ پروگرام ہے، جو ایسے بچوں کے لیے امید کی کرن ہے جو غربت، تنازعات یا دیگر وجوہات کی بنا پر تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں۔

ایکسلریٹڈ لرننگ پروگرام نے ایک اور اہم سنگِ میل کو عبور کر لیا ہے، جہاں یونیسف اور ناروے کے تعاون سے محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے شروع کیے گئے اس پروگرام کے تحت پرائمری سطح کے 665 جبکہ مڈل سطح کے 294 طلبہ اپنا تعلیمی سفر مکمل کر کے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔

فارغ التحصیل بچوں نے اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غربت اور سہولیات کی کمی سمیت بے شمار مسائل کی وجہ سے انہوں نے اسکول چھوڑ دیے تھے، لیکن اے ایل پی پروگرام کے ذریعے اسکولوں کو لوٹنا ایک خوش آئند عمل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp