اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے ہتھیار نہ ڈالے، تمام یرغمالیوں کو رہا نہ کیا اور جنگ کو اسرائیل کی شرائط پر ختم نہ کیا تو غزہ شہر کو تباہ کر دیا جائے گا۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ جلد ہی غزہ حماس کے گرد گھیرا تنگ کردیا جائےگا، جب تک کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی شرائط کو تسلیم نہیں کرتے، جن میں بنیادی شرط تمام یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل حماس جنگ بندی: سیکڑوں غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری
انہوں نے مزید کہاکہ اگر حماس نے شرائط نہ مانیں تو غزہ جو حماس کا گڑھ ہے، رفح اور بیت حانون کی طرح ملبے کا ڈھیر بن جائے گا۔ یہ دونوں شہر ماضی میں اسرائیلی کارروائیوں کے دوران بڑی حد تک تباہ ہو چکے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جمعرات کی شب اسرائیلی وزیر اعظم بیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے غزہ میں باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری مذاکرات شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
نیتن یاہو نے کہاکہ یرغمالیوں کی رہائی کی کوششیں غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے اور حماس کے گڑھ کو ختم کرنے کے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ چلیں گی۔
اس ہفتے کے آغاز میں اسرائیلی وزارت دفاع نے قریباً 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو غزہ شہر پر قبضے کے لیے طلب کرنے کی منظوری دی تھی۔
نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہاکہ یہ دونوں معاملات حماس کو شکست دینا اور تمام یرغمالیوں کو رہا کرانا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، تاہم انہوں نے آئندہ مذاکرات کے مرحلے کی تفصیلات بیان نہیں کیں۔
ذرائع کے مطابق ثالث کئی دنوں سے اسرائیل کے باضابطہ جواب کے منتظر ہیں۔ حماس نے رواں ہفتے کے آغاز میں نئی جنگ بندی کی تجویز قبول کر لی تھی، جس میں مرحلہ وار یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے، لیکن اسرائیل بضد ہے کہ تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے۔
غزہ شہر پر حملے کے اسرائیلی منصوبوں نے عالمی سطح پر شدید تنقید کو جنم دیا ہے، جبکہ اندرون ملک بھی اس پر مخالفت سامنے آ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی بمباری جاری، حماس لیڈر کا مصر میں جنگ بندی مذاکرات کے لیے آمد
واضح رہے کہ حماس کے اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیلی کارروائیوں کے دوران اب تک 62 ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔