برطانیہ میں انسانی باقیات کی خرید و فروخت میں اضافہ ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی کھوپڑیوں اور جسمانی اعضا کی تجارت ایک ایسے قانونی سائے میں ہورہی ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کچھ دکانوں میں مختلف انسانی باقیات فروخت کرتے ہیں، جن میں کھوپڑیاں، ممی شدہ اعضا اور حتیٰ کہ انسانی چمڑے سے بنے بٹوے شامل ہیں۔ اگرچہ اس کاروبار کو غیرقانونی قرار نہیں دیا گیا لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے قبروں کی بے حرمتی اور نئی طرز کی ‘باڈی اسنیچنگ’ کو فروغ مل رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کا تھائی لینڈ کو بھی ’ فاسٹنگ بدھا‘ کے تاریخی مجسمہ کا تحفہ
برطانیہ کی معروف فرانزک ماہر ڈیم سو بلیک کے مطابق جب پرندوں کے گھونسلے بیچنا جرم ہے تو انسانی جسم کو بیچنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو سکون کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے نہ کہ دوبارہ نکال کر فروخت کرنے کے لیے۔
جامعہ کیمبرج کی ماہر ڈاکٹر ٹرش بیئرز کے مطابق پچھلے 5 برسوں میں انسانی باقیات کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور صرف ان کی تنظیم نے 200 سے زائد سودے روکنے میں کردار ادا کیا ہے۔ بیشتر کھوپڑیاں پرانی میڈیکل اسٹڈیز یا میوزیم کی اشیا ہوتی ہیں لیکن اب ایسی کھوپڑیاں بھی بیچی جا رہی ہیں جن پر حالیہ قبروں سے نکالے جانے کے نشانات پائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا: ماہرین آثار قدیمہ نے کس طرح ’مستقبل میں قدیم زیور‘ کا درجہ پانے والی انگوٹھی کھوج نکالی
قانونی ماہرین کے مطابق برطانیہ کا موجودہ ہیومن ٹیشو ایکٹ 2004 صرف 100 برس سے کم پرانی باقیات پر لاگو ہوتا ہے جبکہ اس سے پرانی باقیات کی خرید و فروخت پر پابندی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا اور آن لائن مارکیٹ اس کاروبار کے بڑے مراکز بن چکے ہیں۔
حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ انسانی باقیات کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا ضروری ہے اور کسی بھی بے حرمتی کو ناقابلِ برداشت جرم سمجھا جائے گا۔
ماہرین کا مطالبہ ہے کہ قانون میں فوری اصلاحات لائی جائیں تاکہ انسانی جسم اور اعضا کو تجارتی اشیا کے طور پر استعمال ہونے سے روکا جاسکے۔