بلوچستان کی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر خاتون ٹیچر زرینہ مری کے اغوا کی خبر مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔ مکمل محکمانہ تحقیقات کی گئی ہیں، اور یہ واضح ہے کہ زرینہ مری نام کی کوئی اسکول ٹیچر نہیں تھیں۔ مسنگ پرسنز انتہائی حساس مسئلہ ہے، ایسی کوئی بھی بے بنیاد خبر دینے سے قبل متعلقہ ادارے سے تحقیق کر لینی چاہیئے تھی۔
کوئٹہ میں ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند اور مشیر وزیراعلیٰ مینا مجید بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرس میں وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی کا کہنا تھا کہ زرینہ مری کے حوالے سے محکمہ تعلیم اور دیگر اداروں نے مکمل تحقیقات کی ہیں جن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے پاس زرینہ مری نام کی کوئی ٹیچر تھیں ہی نہیں۔
مزید پڑھیں:بلوچستان: کوئٹہ اور تربت میں جدید گرین و پنک بسیں جلد سڑکوں پر آ جائیں گی
راحیلہ درانی نے کہا کہ بعض عناصر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں تاکہ ملک اور صوبے میں بے چینی پھیلائی جا سکے۔
مشیر وزیراعلیٰ مینا مجید بلوچ نے بھی وضاحت کی کہ محکمہ تعلیم کے ریکارڈ میں زرینہ مری نام کی کوئی استاد درج نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہری پاکستان مخالف بیانیے کا حصہ نہ بنیں اور سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ خبروں کو پھیلانے سے گریز کریں۔
اس موقع پر مینا مجید بلوچ نے ایک ویڈیو کلپ بھی صحافیوں کو دکھایا جس میں تاج محمد، پرنسپل گورنمنٹ ماڈل ہائی اسکول کوہلو نے بتایا کہ میری 38 سال سروس ہے۔ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اس نام کا نہ کوئی اسکول ہے اور اس نام کی نہ ہی کوئی اسکول ٹیچر رہی ہیں۔ زرینہ مری کے اغوا کی خبر بے بنیاد اور جھوٹی ہے۔
زرینہ مری گورنمنٹ مڈل سکول کاہان میں ٹیچر تھیں انہیں 2005 میں کوہلو سے گرفتار کر کے کراچی کے ایک حراستی مرکز میں لیجایا گیا انکا شیر خوار پچہ بھی ساتھ تھا زرینہ مری کی جبری گمشدگی کو 20 سال گذر گئے اب انکی تصویر اٹھا کر احتجاج کرنے والے بھی لاپتہ ہو چکے لیکن میں یاد دلاتا رہونگا pic.twitter.com/rGCVSAs19c
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) August 23, 2025
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا کہ سینیئر صحافی بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں جو غلط ہے، اس وضاحت کے بعد بھی بھی اگر ان کے پاس حقائق اور ثبوت ہیں تو وہ سامنے لائیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان کی بیٹیاں روایتوں کے حصار توڑ کر فٹ بال کے میدان میں اتر آئیں
واضح رہے کہ چند دن قبل سینیئر صحافی حامد میر نے بھی اس جھوٹی خبر سے متعلق ایک پوسٹ کی تھی جس سے سوشل میڈیا پر اضطراب اور ابہام پیدا ہوا۔ تاہم حکومتی وضاحت کے بعد یہ خبر بے بنیاد ثابت ہوئی۔