اقوامِ متحدہ کی جوہری نگرانی کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے معائنہ کار ایران واپس پہنچ گئے ہیں۔ یہ اقدام ایران اور اسرائیل کے درمیان جون میں ہونے والی 12 روزہ جنگ اور امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
ایران نے جون کی جنگ کے بعد IAEA سے تعاون معطل کر دیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ یہ ادارہ اسرائیل اور امریکا کے حملوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہا۔
یہ بھی پڑھیے: ایران امریکا کے اطاعت کے مطالبے کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا رہے گا، آیت اللہ خامنائی
جوہری نگرانی کے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے ایک انٹرویو میں تصدیق کی کہ پہلی ٹیم ایران واپس آگئی ہے اور ہم اپنا کام دوبارہ شروع کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کی کئی تنصیبات متاثر ہوئیں اور اب اس بات پر بات چیت ہو رہی ہے کہ معائنہ کاروں کے کام کو دوبارہ کس طریقہ کار کے تحت آگے بڑھایا جائے۔
دوسری طرف ایران نے جنیوا میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں تاکہ ان یورپی طاقتوں کو پابندیوں کے نفاذ سے روکا جا سکے، جس کی وہ دھمکی دے چکے ہیں۔ یہ پابندیاں اگست کے آخر تک فعال ہوسکتی ہیں جس کے بعد 2015 کے ایٹمی معاہدے کے تحت ختم کی گئی اقوامِ متحدہ کی سخت پابندیاں دوبارہ نافذ ہو جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیے: ایران ایٹمی معاہدہ: امریکا اور یورپ کا آئندہ ماہ کی آخری تاریخ پر اتفاق
ایرانی نائب وزیرِ خارجہ کاظم غریب آبادی نے مذاکرات کے بعد کہا کہ یورپی ممالک کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ وہ درست فیصلہ کریں اور سفارت کاری کو وقت اور موقع دیں۔
یہ مذاکرات جون کی جنگ کے بعد یورپی سفارت کاروں کے ساتھ ہونے والے دوسرے دور کے ہیں۔ جنگ کا آغاز اسرائیل کے اچانک حملے سے ہوا تھا، جس نے ایران اور امریکا کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کو بھی متاثر کیا۔
ایران نے IAEA پر بھی جزوی طور پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی وجہ سے جوہری تنصیبات پر حملے ممکن ہوئے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس نے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے حملے کیے تاہم ایران بارہا اس دعوے کو مسترد کر چکا ہے۔
واضح رہے کہ 2015 کا ایران جوہری معاہدہ اس وقت کمزور ہوا جب 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔