اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر کے نواحی علاقوں پر رات بھر فضائی اور زمینی حملے جاری رکھے جس کے نتیجے میں متعدد گھر تباہ اور مزید خاندان بے گھر ہوگئے۔
غزہ کی مقامی صحت حکام کے مطابق اتوار کو اسرائیلی فائرنگ اور بمباری میں کم از کم 18 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 13 وہ شہری بھی شامل ہیں جو وسطی غزہ میں امدادی مرکز کے قریب کھانے کے لیے جمع تھے جبکہ 2 افراد غزہ شہر کے ایک گھر پر حملے میں مارے گئے۔
اسرائیلی فوج نے گزشتہ 3 ہفتوں میں غزہ شہر کے اطراف کارروائیوں میں تیزی لائی ہے اور جمعے کے روز امداد کی ترسیل کے لیے دی جانے والی عارضی مہلت ختم کرکے علاقے کو خطرناک جنگی زون قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ سے مقامی آبادی کا بڑے پیمانے پر انخلا ممکن نہیں، ریڈ کراس کے سربراہ کا انتباہ
اسرائیلی حکام کے مطابق اتوار کی شام کابینہ اجلاس میں غزہ شہر پر قبضے کے اگلے مراحل پر غور کیا جائے گا۔ تاہم مکمل آپریشن چند ہفتے بعد شروع ہونے کا امکان ہے کیونکہ اسرائیل پہلے شہریوں کے انخلا کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق کئی ہزار افراد پہلے ہی شہر چھوڑ کر وسطی اور جنوبی علاقوں کا رخ کرچکے ہیں، تاہم غزہ شہر میں اب بھی دو ملین کی آبادی کا تقریباً نصف موجود ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے سیاسی قیادت کو خبردار کیا ہے کہ اس آپریشن سے حماس کے قبضے میں موجود یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ اسرائیل میں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہروں میں تیزی آگئی ہے۔
یاد رہے کہ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے سے شروع ہوئی تھی، جس میں تقریباً 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور 251 کو یرغمال بنایا گیا۔ ان میں سے 48 یرغمالیوں میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کی اطلاع ہے۔
غزہ کی صحت حکام کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں میں 63 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں، جبکہ غزہ مکمل انسانی بحران اور تباہی کا شکار ہوچکا ہے۔