وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی ہی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی نشان کردہ آبی گزر گاہوں پر تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اللہ جب کسی آزمائش میں ڈالتا ہے تو اس کے راستے بھی متعین کرتا ہے لیکن ہم نے تو راستے ہی بند کردیے ہیں، لوگوں نے بے دردی اور بے شرمی کے ساتھ آبی گزرگاہوں میں گھر بنالیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دریائے چناب، راوی اور ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب، سیالکوٹ میں بارش کا 11 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
خواجہ آصف کے مطابق ایک عام آدمی سے لے کر فیکٹری مالک تک کوئی قانون پر عملداری کے لیے تیار نہیں ہے، اور اس صورتحال نے ہمیں پانی پانی کردیاہے، اور یہ مسئلہ صرف سیالکوٹ کا نہیں اب سارے پاکستان کا ہے۔
وزیر دفاع بھی اگر مسئلہ کی نشاندہی کریں گے تو حل کون کرے گا یہ تو حکومت کا کام ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف کا سوال میں پوشیدہ جواب سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی وزرا سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کریں، وزیراعظم کی ہدایت
’میری، میری جماعت کی اور میرے پارلیمنٹ میں رفقا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آبی گزرگاہوں پر جن تجاوزات کی میں نشاندہی کر رہا ہوں، انہیں ختم کیا جائے۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے شہروں کے توسیعی منصوبوں کی مخالفت کرتے ہوئے نئے شہر بسانے پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ شہروں کو پھیلانے کا شاخسانہ ان کے انفرا اسٹرکچر کے بیٹھ جانے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور ان کی ذاتی رائے میں موجودہ شہروں کی توسیع کا خاتمہ ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام اور حالیہ سیلابی صورتحال
دریائے راوی کی زمین پر سیلاب زدہ ہاؤسنگ سوسائیٹیز پر یہ اصول کیسے لاگو ہوگا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کوئی نہ کوئی پیکج تو بنانا پڑے گا، ایک چیز غلط ہوئی ہے، اور اب یہ سب پر عیاں ہوچکا ہے کہ غلط ہوئی ہے، اور نیچر نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے، تو اس کو جاری رکھنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
دریائے راوی کی زمین پر موجود ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں اتنی سرمایہ کاری ہوچکی ہے اب اسے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس دلیل کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ ’جن لوگوں نے سرمایہ کاری کی تھی، انہیں پتا ہونا چاہیے تھا، پھر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کی باتوں میں۔‘