پاکستان میں تقریباً 56 لاکھ گھرانے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شریک ہیں اور ان میں سے نصف سے زیادہ خاندانوں کی آمدن کا ذریعہ مویشی پالنا ہے لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں خواتین سلائی، کڑھائی، گھریلو اشیا کی تیاری اور بیوٹی پارلرز جیسے چھوٹے کاروبار کے ذریعے بھی روزگار حاصل کر رہی ہیں اگرچہ ان کا حصہ اعداد و شمار میں بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں سیلابی صورتحال، ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ خواتین معاشی بحران کا شکار
ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک معاشی مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ تقریباً 4 فیصد گھرانے سلائی اور 1.4 فیصد کڑھائی کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے ہیں اور ان دونوں پیشوں میں زیادہ تر خواتین سرگرم ہیں۔
علاوہ ازیں خواتین فوڈ پیکنگ، آن لائن سروسز، گھریلو کھانوں کی فروخت اور بیوٹی پارلر جیسی سرگرمیوں میں بھی شامل ہیں مگر ان کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ظاہر کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: بڑھتی آبادی معیشت کے لیے چیلنج، نوجوان اور خواتین کو مواقع دیے جائیں، وزیراعظم
تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ خواتین کی معاشی شراکت صرف ان اعداد و شمار سے نہیں سمجھی جا سکتی۔
معاشیات کی ماہر ڈاکٹر فاخرہ نورین کا کہنا ہے کہ خواتین کے معاشی اور سماجی کردار کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اکثر مردم شماری یا سروے کے دوران خواتین سے براہ راست بات ہی نہیں کی جاتی۔ معلومات فراہم کرنے والا عام طور پر مرد ہوتا ہے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر خواتین کی محنت کو نظرانداز کر دیتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں خواتین مویشی پالنے، دودھ بیچنے، دیسی گھی یا اچار تیار کرنے اور مرغیاں رکھنے جیسے کاموں کے ذریعے گھر کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں جو کہ بہت حد تک نظرانداز کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: آزاد کشمیر: دومیل پائیں کی جفا کش خواتین گھر اور کھیت دونوں محاذوں پر سرخرو
لاہور میں بیوٹی پارلر اور سلائی کڑھائی کا مرکز چلانے والی قرۃ العین نے اپنی ذاتی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ میں نے ابتدا میں یہ کاروبار گوجرانوالہ میں شروع کرنا چاہا لیکن برادری کے دباؤ کی وجہ سے لاہور منتقل ہونا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ آج کاروبار کامیاب ہے لیکن ہر بار جب اس کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں بیٹیوں کے رشتوں سے متعلق خدشات ابھرنے لگتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی صحافی خواتین: ہمت، جدوجہد اور تبدیلی کی کہانی
قرۃ العین کے مطابق جب تک خواتین کو یہ اعتماد حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کہیں بھی دکان یا چھوٹا کاروبار کھول سکتی ہیں اور معاشرہ انہیں عجیب نظروں سے نہیں دیکھے گا تب تک وہ اپنی معاشی آزادی کے لیے لڑتی رہیں گی۔