ملک بھر میں کتنے چائے خانے، پتی کی کھپت کتنی؟

پیر 1 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں معاشی مردم شماری کے حالیہ اعداد و شمار نے ایک دلچسپ تقابل کو نمایاں کیا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں صرف 23 ہزار فیکٹریاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائد چائے کے ڈھابے اور ہوٹل سرگرم ہیں۔ یہ فرق بظاہر چونکا دینے والا ہے لیکن ماہرین کے نزدیک یہ پاکستان کے سماجی رجحانات اور ثقافتی رویوں کی عکاسی کرتا ہے اور کسی حد تک فطری بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانیوں نے ایک سال میں 179 ارب روپے سے زیادہ کی چائے پی لی

ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق سماجی محقق احمد اعجاز کے مطابق اس رجحان کو غیر معمولی قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ چائے خانوں اور ہوٹلوں کی بڑی تعداد اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی معاشرہ تفریح کو کھانے پینے کی سرگرمیوں سے جوڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں لوگ پکنک پر بھی یہی سوچ کر جاتے ہیں کہ کیا کھائیں گے۔

یہ صرف کھانے کا شوق نہیں بلکہ محدود تفریحی سہولیات اور سماجی روابط کی مضبوطی کا بھی نتیجہ ہے۔

چائے خانے سماجی مراکز

سماجی مورخ سجاد اظہر اس پہلو کو اور گہرائی سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول یورپ میں لوگ مصروف ہوتے ہیں اور یہاں فرصت زیادہ ہے۔

مزید پڑھیے: ساون، چائے اور موسیقی: بارش میں بھیگتے بل بورڈ کو گنیز ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز کیوں ملا؟

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں سماجی میل جول زیادہ ہے لوگ گھنٹوں چائے پیتے اور باتیں کرتے ہیں۔ یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے اور معاشرے کو زیادہ انسان دوست بناتا ہے۔

ان کے مطابق چائے خانے صرف چائے فروخت کرنے کی جگہ نہیں بلکہ گفتگو، تبادلہ خیال اور تعلقات کے اہم مراکز ہوتے ہیں۔

چائے کا بڑھتا ہوا رجحان

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ہر سال ڈھائی لاکھ ٹن سے زائد چائے استعمال کرتا ہے اور دنیا کے بڑے چائے درآمد کنندگان میں شامل ہے۔

یہ رجحان نہ صرف صارفین کے ذوق کو ظاہر کرتا ہے بلکہ چھوٹے کاروبار کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: ’چائے کی پیالی میں قسمت‘: چیٹ جی پی ٹی اب طلاقیں بھی کروانے لگی!

سجاد اظہر کا کہنا ہے کہ فیکٹریاں سامان بناتی ہیں مگر چائے خانے بات چیت اور خیال پیدا کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ مقامی معیشت اور سماجی زندگی دونوں کو سہارا دیتے ہیں۔

تشویش کا پہلو؟

ماہرین اس بات پر ضرور متفق ہیں کہ فیکٹریوں کی کم تعداد معاشی ترقی کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے لیکن ڈھابوں اور چائے خانوں کی زیادہ تعداد خود کوئی منفی علامت نہیں بلکہ یہ ایک ایسا پہلو ہے جسے بہتر منصوبہ بندی اور تربیت کے ذریعے مزید معاشی مواقع میں بدلا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پاکستان اور جرمنی کا مختلف شعبوں میں تعاون مزید مضبوط بنانے پر اتفاق

’خرابی رافیل طیاروں میں نہیں بلکہ انہیں اڑانے والے بھارتی پائلٹس میں تھی‘، فرانسیسی کمانڈر

’ایلی للّی‘ وزن گھٹانے والی ادویات کی کامیابی سے پہلی ٹریلین ڈالر کمپنی

ضمنی انتخابات: ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر رانا ثنا اللہ کو 50 ہزار روپے جرمانہ

کوپ 30: موسمیاتی مذاکرات میں رکاوٹ، اہم فیصلے مؤخر

ویڈیو

میڈیا انڈسٹری اور اکیڈیمیا میں رابطہ اور صحافت کا مستقبل

سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے حساس ڈیٹا کیوں چوری کیا؟ 28ویں آئینی ترمیم، کتنے نئے صوبے بننے جارہے ہیں؟

عدلیہ کرپٹ ترین ادارہ، آئی ایم ایف کی حکومت کے خلاف چارج شیٹ، رپورٹ 3 ماہ تک کیوں چھپائی گئی؟

کالم / تجزیہ

ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت